کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 160
تک اپنی مخطوبہ کو دیکھ سکتاہے؛کیونکہ وہ اسے اس کے گھر دیکھنے آئے گا اور گھر کے اندر یہ اعضاء عام طور پہ کھلے رہتے ہیں۔ فقہاء کا یہ کہنا عورت کے ستر کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے،تو اس سے مراد گھر کے کام کاج کی ضرورت کے تحت ہے۔ فقہاء کرام نے عورتوں کی ستر کی یہ حدود اپنے اپنے باب کے تحت ذکر کی ہیں،کیا ان حدود کاذکر دعوتوں اور ولیموں کے باب میں کیا ہے؟ہرگزنہیں۔ فقہاء نے لباس اورزینت کے ابواب میں عورت کے ممنوعہ اورحرام شدہ لباسوں کا ذکر کیا ہے،اور یہ بتایا ہے کہ ایسے لباس جو باریکی یا تنگی کی بناء پر برہنگی اور عریانیت کا باعث ہوںانہیں زیب تن کرناحرام ہے۔ فقہاء کرام کے ذہنوں میں دوردورتک یہ بات نہ تھی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے، مسلمان عورتیں ان کے اس قول اور ضابطہ کوآڑبناکر اپنے جسم کے محاسن ظاہر کرتی پھریں گی،بے حیاء اور بدکردار عورتوں کی نقالی کریں گی اور مغرب کی فیشن زدہ عورتوں کے ایسے لباسوں اورڈیزائینوں کو اپنائیں گی،جن میں حیاء اور وقار نامی کوئی چیز نہیں۔ فقہاء کا مذکورہ ضابطہ (کہ عورت کاستر ناف سے گھٹنے تک ہے)کام کاج کی ضرورت پر محمول ہوگا،اس سے یہ بات کہاںثابت ہوتی ہے کہ عورت