کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 140
اور تفریحی مراکز وغیرہ میں اسی قسم کے لباس میں ملبوس ہوکر پہنے جاناشروع کردیا۔ اس سلسلے میں ان فتنہ زدہ لڑکیوں کا بودہ سا عذر یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اوپر عبایہ پہن رکھا ہے،جواندرکے لباس کو ڈھانپے رکھتاہے۔ یہ سادہ لوح لڑکیاں امرِ واقع سے حقیقتاً یاعمداًبے خبر ہیں،بعض اوقات اندرکا لباس اپنی مخالف رنگت کی بناء پر یا پھر عبایہ کے باریک ہونےکی وجہ سے یا پھر مختلف حرکات وسکنات کے نتیجے میں جھلکتارہتاہے۔ جوشخص ان اسلامی معاشروں میں کہ جن کی عورتوں نے چھوٹا،باریک اور تنگ لباس پہن کر بازاروں،محفلوں اور ساحلِ سمندر وغیرہ پر جانا شروع کردیا ہے ،کو عبرت ونصیحت کی نظر سے دیکھے گا تواسے اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ یہ قیامت خیزی درحقیقت خاندان کے بڑوں کے تساہل سے شروع ہوئی ہے، پھر اسے علماء کے روپ میں نظرآنے والے بہروپیوںاور بزعمِ خویش کشادہ نظر قسم کےمفکرین ومثقفین جواپنے آپ کو آسانیاں پیداکرنے والے حقیقت پسند سمجھتے ہیں، کی تائید حاصل ہوگئی۔ فساد اوربگاڑ کے بڑے بڑے منصوبے،آغازِ امر میں چھوٹے ہی ہوتے ہیں، آگ کتنی بڑی ہومگر اس کانقطۂ آغاز ایک چنگاری ہوتا ہے۔ فحاشی اورعریانی اگربڑوں سے چھوٹوں تک منتقل ہواور وہ عادت کی شکل