کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 14
یا پھر دوسرا قضیہ پہلے منصوص علیہ قضیہ کے ساتھ از قبیلِ قیاس ملحق ہوگا ؟
اس مسئلہ میں علماء کے دونوں قول وارد ہیں:
مسئلہ کی تفصیل میں جائیں تو اس کی تین صورتیں بنتی ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ نئے قضیہ میں موجود علت ،منصوص علیہ قضیہ میں موجود علت کی بہ نسبت زیادہ بڑی اورزیادہ ظاہروواضح ہے،اور اس صورت میں بلاشبہ نئے قضیہ کاحکم پہلے قضیہ جیسا ہی ہوگا،اور اس نئے قضیہ کاحکم منصوص ہی شمارہوگا،نہ کہ مقیس۔
اس صورت میں اگر کسی نے اختلاف کیا ہے،جیسا کہ ابن حزم وغیرہ تو یہ اختلاف انتہائی ضعیف اور ناقابل التفات ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے والدین سے کلمۂ (أف) کہنے سے منع فرمایا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
[فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا][1] یعنی:اپنے ماں باپ کو اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں ڈانٹو۔
(توکیا مارناجائز ہوگا؟)اب اگرکوئی شخص اپنے ماں باپ کو مارتا ہے (والعیاذباللہ) تو اس کا یہ عمل مذکورہ نہی کے حکم میں بالاولیٰ نصاً داخل ہوگا۔
[1] الاسراء:۲۳