کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 127
اور مکمل وقار وحیاء پر قائم تھا۔ شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں،گھروں کے اندر عورتوں کالباس پاؤں کے ٹخنے سے لیکر ہاتھ کی ہتھیلی تک ہوتاتھا،گویا گھروں کے اندر بھی وہ ڈھکے جسم کے ساتھ رہتی تھیں، جب باہر نکلنا ہوتاتوانتہائی ڈھیلےڈھالے لباس ،جو زمین سے گھسٹتاہوتا میں ملبوس ومستور ہوکر نکلتیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بازوکی مقدار،زمین پہ لٹکانے کی اجازت دی تھی، اس سےز یادہ سے روکاتھا۔[1] (گویا صحابیات کی خواہش یہ تھی کہ لباس کے دامن کو اس سے زیادہ لٹکنااور زمین سے گھسٹناچاہئے،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے زیادہ اجازت نہیں دی) تئیسویں دلیل عن ابن الحنظلیۃ رضی اللّٰه عنہ قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: أصلحوا لباسکم، حتی تکونوا کأنکم شامۃ فی الناس ، فإن اللّٰه تعالیٰ لایحب الفحش ولا التفحش.[2]
[1] فتاویٰ علماء البلدالحرام،ص:۱۸۵۸یہ شیخ ابن عثیمینaکے دستخط کے ساتھ بتاریخ۱۴۱۴، ۱۱،۲۰جاری ہوا اس کے علاوہ فتاویٰ ارکان الاسلام، ص:۲۹۴ [2] لابأس بہ (اس میں کوئی حرج نہیں)ذہبی نے کہا ہے قیس بن بشر اور اس کاوالدغیرمعروف ہیں، ابن الحنظلیہ سے ہشام بن سعد متفرد ہے،ابوحاتم کہتے ہیں میں اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں سمجھتااور مجھے نہیں معلوم کہ ہشام کے علاوہ کسی نے اس سے روایت کی ہو،ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ہشام نے کہا ہے :ابن الحنظلیہ سچا آدمی ہے۔تخریج حدیث: احمد(۴؍۱۷۹-۱۸۰) ابوداؤد(۴۰۸۹) الطبرانی فی الکبیر(۵۶۱۶) البیہقی فی الشعب (۶۲۰۴) المزی (تہذیب: ۴؍۱۴۲-۱۴۳) الحاکم (المستدرک۴؍۱۸۳) اس حدیث کی سند کو حاکم نے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ابن المفلح (الآداب ۳؍۵۵۱)نے کہا ہےاسے ابوداؤد نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔نووی کہتے ہیں:اسے ابوداؤد نے حسن سند سے روایت کیا ہے مگر قیس بن بشر کی توثیق اور تضعیف میں اختلاف ہے ،البتہ مسلم نے اس کی روایت ذکر کی ہے۔