کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 115
نے ایک بل دینے کا حکم دیا اور دو بل دینے سے روکا،تاکہ اس میں مرد کی پگڑی کی مشابہت پیدا نہ ہوجائے۔ اس باب میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(چونکہ سابقہ نصوص مردوعورت کے لباس کے مابین فرق رکھنے پرمشتمل ہیں)لہذا مردوںاورعورتوں کے لباس کے درمیان بطورِ فارق یہ قرارپائے گاکہ مردوں کالباس وہ ہوناچاہئے جوان کے لائق ہواور عورتوں کالباس وہ جو ان کے لائق ہو،چنانچہ مردوں کو ایسالباس پہننے کا حکم دیاجائے جو ان کے لئے مناسب ہو اورعورتوں کو ایسالباس جو ان کیلئے مناسب ہو،اب کیونکہ عورتوں کو مکمل حجاب اختیار کرنے اور (اجنبی مردوں سے) چُھپے رہنےکاحکم ہے اور یہ بھی حکم ہے کہ وہ تبرج اورخود نمائی سے یکسر گریز کریں (توپھر ان کالباس ایسا ہی ہوناچاہئے جو پردےکے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والاہو۔)[1] شیخ الاسلام نے ایسے جوتے جوباریک اورنرم ہونے کی بناء پر پاؤں کے حجم کو ظاہر کرتے ہوں کےبارے میں فرمایاہے:یہ صرف مردوں کے لباس کاحصہ ہیں۔
[1] فتاویٰ ابن تیمیہ۲۲؍۱۴۸-۱۴۹