کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 78
محل نہیں ہیں،جیسے وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے اور چھوٹی بچی تو ان کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔یہاں آکر اس شخص نے آیت کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر مطلق چھونے سے وضو ٹوٹنے کا دعویٰ ترک کردیا۔اور ایسی شرط عائد کردی جس کی اس کے پاس نص اور قیاس کی صورت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔جبکہ منصوص دلائل شہوت کے ساتھ عورت کو چھونے اور بغیر شہوت کے ساتھ چھونے میں تو فرق کرتے ہیں مگر شہوت کی جگہ میں چھونے اور غیر شہوت کی جگہ میں چھونے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے،اور یہ چھونا تمام عبادات میں موثر ہے،مثلاً احرام،اعتکاف اور روزہ وغیرہ۔اور جب یہ قول ایسا ہے کہ جس پر نہ ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں اور نہ ہی قیاس تو ثابت ہوا کہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور دلیل نہیں ہے۔ اور جس نے وضو کے ٹوٹنے کو ایسے چھونے سے معلق کیا جو شہوت کے ساتھ ہوتو اس کی دلیل وہ ظاہری مفہوم ہے جو اس طرح کے الفاظ کے متعلق مشہور ہوتا ہے،اور شریعت کے اصول ودلائل پر قیاس کرنا اس کی دوسری دلیل ہے۔اور جس کسی نے چھونے کو کسی حالت میں بھی ناقض وضو قرار نہیں دیا تو وہ اس لیے کہ اس کے نزدیک چھونے سے مراد جماع ہے،جیسا کہ اس فرمان باری تعالیٰ میں ہے: "وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ"(البقرہ:237) "اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ۔" یہاں چھونے سے مراد جماع ہے۔ اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیات موجود ہیں۔احادیث میں سے اس کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے: "أن النبي صلى الله عليه وسلم قبَّل بعض نسائه ، ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضأ" [1] "بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو بوسہ دیا، پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔" مگر اس کی صحت پر کلام ہے۔نیز اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ تو معلوم ہے کہ لوگوں کا اپنی عورتوں کو چھونے والا معاملہ وہ ہے جس میں عموماً لوگ مبتلا ہوتے
[1] ۔سنن دارقطنی(136/1)