کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 77
اعتکاف کرنے والے کے لیے بغیر شہوت سے عورت کے ساتھ مباشرت تو کرنا حرام نہیں ہے،حرام وہ مباشرت ہے جو شہوت کے ساتھ ہو۔اسی طرح محرم آدمی ،جس کی پابندی اعتکاف سے سخت ہے،بغیر شہوت کے عورت سے مباشرت کرے تو یہ اس کے لیے حرام ہے اور نہ ہی اس پر اس کے جرمانے کے طور پر قربانی لازم آتی ہے۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
"ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ" (الاحزاب:49)
"پھر تم ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔"
اور یہ فرمان:
"لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ "(البقرۃ:236)
"تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو،جب تک تم نے انھیں ہاتھ نہ لگایا ہو۔"
ان آیات میں عورت کو چھونے سے اگر شہوت کے بغیر چھونا مراد لیا جائے تو اس سے عورت پر نہ عدت ہے،نہ مہر لازم آتاہے اور نہ ہی سسرالی رشتہ داروں کی حرمت ثابت ہوتی ہے،اس پر علماء کا اتفاق ہے۔برخلاف اس کے کہ اگر اس نے عورت کوشہوت سے چھوا،البتہ وطی ودخول نہیں کیا تو اب حق مہر لازم ہونے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے مذہب میں علماء کے درمیان مشہور اختلاف ہے۔
جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:43) میں چھونے سے مراد ایسا چھونا بھی ہے جو شہوت کے بغیر ہوتو وہ قرآن کی لغت سے دور چلا گیا بلکہ اس نے عرف عام کی لغت کو بھی ترک کردیا،حالانکہ وہ چھونا جو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اس سے مراد شہوت کے ساتھ چھونا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ جب میاں بیوی کے درمیان وطی کا ذکر ہوتو اس سے مراد فرج(عورت کی اگلی شرمگاہ) میں وطی کرنا ہی ہوتا ہے نہ کہ عورت کی دبر(پچھلی شرمگاہ) میں۔نیز وہ یہ نہیں کہتا کہ بلاشبہ یہ حکم مطلق عورتوں کی اس قسم کے ساتھ خاص ہے جس سے شہوت پوری کی جاسکتی ہو۔رہی وہ عورتیں جو شہوت کا