کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 76
عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹنے کاحکم سوال:عورتوں کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتاہے کہ نہیں؟ جواب:عورتوں کو چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق فقہاء کے تین اقوال ہیں۔ دو انتہائی اور ایک معتدل ۔ان اقوال میں سے ضعیف قول یہ ہے کہ عورتوں کو چھونا وضو کو توڑدیتاہے۔جب وہ چھونا شہوت کے بغیر ہو،البتہ جس کو چھوا گیا ہے وہاں پر شہوت کا خدشہ موجود ہو،یہ قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: "أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:43) اور ایک دوسری قراءت میں یہ الفاظ ہیں: "أو مسستم" دوسرا قول یہ ہے کہ بے شک عورتوں کو چھونا کسی حال میں بھی ناقض وضو نہیں ہے اگرچہ وہ چھونا شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو،یہ قول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کاہے۔ اگرچہ یہ دونوں قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہیں لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب امام مالک اور فقہاء سبعہ کے مذہب کے مطابق ہے ،وہ یہ کہ بلاشبہ عورت کو چھونا اگر شہوت کے ساتھ ہوتو یہ ناقض وضو ہے اور اگر چھونا شہوت کے بغیر ہو تو ناقض وضو نہیں ہے،اس مسئلہ میں یہ قول اور اس سے پہلے والا قول ہی قابل التفات ہے۔ وضو توڑنے کو عورتوں کو صرف چھونے سے معلق کرنا نہ صرف اصول کے خلاف ہے بلکہ یہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اورآثارصحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی خلاف ہے۔جو اس کا قائل ہے اس کے پاس بطور دلیل نہ کوئی نص ہے نہ قیاس۔اگراللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:43)میں ہاتھ سے چھونا اور بوسہ وغیرہ لے لینا مراد لیا جائے۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بھی قول ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔کیونکہ قرآن وسنت میں جہاں بھی اس طرح کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں وہاں ان سے مراد شہوت کے ساتھ چھونا،یعنی جماع ہی مراد ہوتاہے،جیسا کہ آیت ا عتکاف میں ہے: "وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ " (البقرۃ:187) "اور مسجد میں اعتکاف کرنے کے دوران عورتوں سے مباشرت نہ کرو۔"