کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 74
ہے کہ مطلق روایت کو مقید پر محمول کیا جائے کیونکہ حدیث ایک ہے اور دو الفاظ سے مروی ہے، ایک میں اطلاق ہے اور دوسری میں تقیید، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے، بنابریں وہ عورت جو اپنے بچے کی صفائی ستھرائی کرتی ہے اور اس کی شرمگاہ کو چھوتی ہے وہ دوبارہ وضونہیں کرے گی اور آدمی بھی اگر اپنے بچے کی شرمگاہ کو چھولیتا ہے تو وہ بھی وضو نہیں دہرائے گا۔میں قائل اس بات کاہوں لیکن عملاً میں بذات خود اس سے وضو کرتا ہوں لیکن آلہ تناسل کو چھونے پر وضو کیے بغیر نماز پڑھنے سے جونہی ہے وہ جونہی تنزیہی ہے اور آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرنے کا حکم مستحب ہے اور احتیاط کی بنیاد پر ہے ۔
جہاں تک خون نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعلق ہے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بلاشبہ خون نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مدت ساٹھ دن قراردی ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت بیان کی ہے ۔کہتی ہیں:
" كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعِينَ يَوْمًا لا تصلي، وَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ "[1]
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم (نفاس کی وجہ سے) چالیس دن بیٹھی رہتی تھیں ۔نماز نہیں پڑھتی تھیں اور ہم اپنے چہروں پر چھائیوں کی وجہ سے ورس بوٹی کا لیپ کرتی تھیں ۔"
یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح لغیرہ ہے اور یہ حدیث صحیح ہے، اس لیے کہ اس کی صحت کے شواہد موجود ہیں۔لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت کے نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے اور اگر خون چالیس دن سے تجاوز کر جائے تو وہ چالیس دن مکمل کرنے کے بعد غسل کرے گی اور پھر ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرے گی اور چالیس دن سے زیادہ آنے والے خون کو استحاضہ شمار کرے گی۔پھر اگر وہ چالیس دن سے پہلے پاک ہو گئی، اس نے غسل کیا اور نماز پڑھنا شروع کردی، مثلاً اگر وہ چالیس دن
[1] ۔حسن صحیح ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (139)