کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 73
"وهل هو إلا بضعة منك""اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آلہ تناسل کو چھونے کی وجہ سے وضو کرنے کا حکم مستحب ہے اور اس شخص کے لیے جس نے بغیر پردے کے اپنی شرمگاہ کو چھواوضو کیے بغیر نماز پڑھنے کے لیے جو ممانعت وارد ہوئی ہے وہ نہی تنزیہی
ہے، سو اس طرح سے مذکورہ تمام دلائل کے درمیان تطبیق پیدا ہو جاتی ہے اور میرے نزدیک بھی یہی راجح موقف ہے لیکن اس مسئلہ میں بہت سی تفصیلات ہیں۔
بعض اہل علم علماء تو (طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کے ٹوٹنے والی حدیث کے) منسوخ ہونے کے قائل ہیں جیسے کہ ابن القیم لیکن انھوں نے اس حدیث کو منسوخ قراردینے کے لیے ایسا مسلک اختیار کیا ہے جس کے ساتھ اصولی لوگ نسخ کو ثابت نہیں کرتے۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے پہلے اسلام قبول کیا جبکہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے بعد میں اسلام قبول کیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بسرہ رضی اللہ عنہا نے جو حدیث بیان کی ہے وہ طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بعد کی ہے؟ہر گز نہیں کیونکہ یہ مرسل صحابی بھی ہو سکتی ہے اور یہ کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہمیں کون بتائے گا کہ انھوں نے یہ روایت کب بیان کی ہے، بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے پہلے یا بعد میں؟بہر حال تطبیق ممکن ہوتے ہوئے نسخ اور ترجیح والا موقف قابل التفات نہیں ہے۔
امام احمد ،مالک اور شافعی رحمۃ اللہ علیہم اس طرف گئے ہیں کہ بلا شبہ جب آدمی اپنے آلہ تناسل کو چھوئے تو وہ وضو کرے کیونکہ امام احمد کے ہاں جو بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے وہ انھی الفاظ سے مروی ہے اور وہ حدیث جس میں مطلق طور پر آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرنے کا حکم ہے تو ان ائمہ نے فرمایا کہ اس حدیث کے الفاظ آدمی کے اپنے آلہ تناسل کو چھونے اور دوسرے کے آلہ تناسل کو چھونے دونوں کو شامل ہیں۔
لیکن اس سلسلے میں یہ کہا جا تا ہے کہ بلا شبہ بسرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ایک ہی ہے جو دو لفظوں سے وارد ہوئی ہے، ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ "یعنی مقید ہے کہ جس نے اپنے آلہ تناسل کو چھوا اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:(من مس ذكره فليتوضأ) [1] یعنی آدمی مطلق آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرے لیکن مناسب یہ
[1] ۔صحیح۔ سنن النسائی رقم الحدیث (164)