کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 72
تو یہ حدیث مردوں اور عورتوں کی اگلی اور پچھلی شرمگاہ دونوں کو شامل ہے، نیز اس حدیث کو امام احمد ، امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہم نے اپنے مسلک کی دلیل بنایا ہے کہ بلاشبہ جب آدمی اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ ان تمام کاموں کے لیے وضو کرے جن کاموں کے لیے وضو کرنا شرط ہے مثلاً :نماز پڑھنا بیت اللہ کا طواف کرنا اور مصحف قرآنی کو چھونا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ تمام احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یعنی شرمگاہ کو چھونے سے وضو کرنا فرض اور واجب نہیں صرف مستحب ہے کیونکہ امام احمد اور اصحاب سنن نے صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کی ہے جو کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔
"ہم میں سے کوئی شخص جب اپنے عضو مخصوص کو چھوئے تو کیا وہ دوبارہ وضو کرے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إنما هو بضعة منك"[1]
"وہ (آلہ تناسل) تو صرف تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔"
اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔
"وهل هو إلا بضعة منك"[2]
"وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔"
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آلہ تناسل تیرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ طبعاً پہلے بیان کردہ احادیث بظاہر طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے متعارض ہیں اور یہ اصولی بات ہے کہ جب دو دلیلوں کا بظاہر ایک دوسری کے ساتھ تعارض ہو جائے تو سب سے پہلے یہ کوشش کی جائے گی کہ دونوں متعارض دلائل کے درمیان اس طرح تطبیق دی جائے کہ دونوں پر عمل ممکن ہو جائےاور اگر ہم ان کے درمیان ایسے تطبیق پیدا نہ کر پائیں تو پھر نسخ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب تاریخ معلوم ہو جائے گی تو ناسخ و منسوخ کے ذریعے دونوں میں تطبیق ممکن ہوگی ۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
[1] ۔حسن۔ مسند احمد (22/4)
[2] ۔صحیح۔ سنن النسائی رقم الحدیث (165)