کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 333
جس نے بچپن میں حج کیا ،پھر بلوغت کے بعد دوبارہ حج کرنے سے پہلے اپنے دادے کی طرف سے حج کرنے کا حکم: سوال:ایک بچے نے بلوغت سے پہلے اپنی طرف سے حج کیا ،پھر بلوغت کے بعد اس کے باپ نے اس کو اس کے دادے کی طرف سے حج کرنے کا حکم دیا، پس اس نے اپنے دادے کی طرف سے حج تمتع کرنے کے لیے عمرے کا احرام باندھا، پھر اس نے (ذوالحجہ کے) آٹھویں دن مسئلہ پوچھا تو اس کو بتایاگیا کہ تیرا پہلا حج نفل تھا اور بلوغت کے بعد تجھ پر حج کرنا واجب ہے ،لہٰذا یہ حج تیری طرف سے ہوگا(نہ کہ تیرے دادے کی طرف سے) یہ قول کہاں تک درست ہے؟کیا اب اس کا یہ حج تمتع ہوگا یا مفرد کیونکہ اس نے اپنے دادے کی طرف سے عمرہ مکمل کر لیا ہے؟ جواب:اسے جو بتایا گیا ہے وہ درست ہے کیونکہ شبرمہ کی حدیث سے یہی مقصود ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا: ((هل حججت عن نفسك؟ ))کیا تونے اپنی طرف سے حج کیا ہواہے؟"اس نے کہا : جی نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثم حُجَّ عن شُبْرُمَةَ " [1] "پہلے اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے۔" اور اس شخص کے عمرہ مکمل کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ جز کا حکم وہی ہے جو کل کا حکم ہے اور یہ عمرہ دادے کی طرف سے بدل کر اس کی طرف سے ہو گا ،یعنی بچے کی طرف سے جو اب بالغ ہو کر اپنے دادے کی طرف سے حج کر رہا ہے۔ نوٹ: بہت سے لوگ اس حدیث کو انسان کے اپنے دادے کی طرف سے حج کے جواز کی دلیل بناتے ہیں لیکن اس شخص کا قول جس نے شبرمہ کی طرف سے حج کرنے کا ارادہ کیا تھا اس نے کہا: أَخٌ لِي أَوْ قَرِيبٌ لِي (وہ میرا بھائی ہے یا میرا قریبی ہے) یہ عبارت اس کا قول نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا قول ہونا محال ہے۔
[1] ۔صحیح۔ سنن ابی داؤد رقم الحدیث(1811)