کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 108
احادیث ہیں جن کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے جبکہ وہ حدیث جس سے غسل جمعہ کی افضلیت مفہوم ہوتی ہے اور عدم وجوب مفہوم ہوتاہے ہم اس کی ایک بھی صحیح سند پانے میں کامیاب نہیں ہوئے،بس اتنی بات ہے کہ ہم نے اس حدیث کو ضعیف کے درجے سے اٹھا کر صحت کے درجے میں پہنچانے کے لیے تعدد طرق کاسہارا لیا ہے۔
ایک فقہی فائدہ:
ہمیشہ زائد چیز کو لے لیا جائے گا، احکام شریعت میں زائد بات حجت وقاعدہ ہے، مثال کے طور پر جب کوئی دلیل کسی کام کے جواز پر دلالت کرتی ہو۔ پھر ایک اور دلیل مل جائے جو اس کام کے مستحب اور افضل ہونے پر دلالت کرےتو ہم پہلی دلیل میں موجود جواز پر ہی کار بند نہیں رہیں گے بلکہ ہم اس کے جواز کے ساتھ دوسری دلیل کی وجہ سے استحباب کو بھی ملالیں گے کیونکہ کسی چیز کا مستحب ہونا اس کے جواز کے منافی تو نہیں ہے۔
ایک اور مثال :جب ایک حدیث کسی چیز کو مباح اور جائز قراردیتی ہو اور ایک دوسری حدیث اس چیز کو حرام بتلاتی ہو اور ہم کو دونوں حدیثوں میں سے کسی کے مؤخر ہونے کی تاریخ کا بھی علم نہیں تو اس کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ جب منع کرنے والی اور اجازت دینے والی دو دلیلوں کا آپس میں تعارض ہو جائے تو روکنے اور منع کرنے والی دلیل کو جائز کرنے والی دلیل پر مقدم کیا جائے گا۔
ایک ضعیف سند والی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إن اللّٰہ فرض فرائض فلا تضيعوها، وحدد حدودًا فلا تعتدوها، وسكت عن أشياء رحمةً بكم فلا تسألوا عنها" [1]
"یقیناًاللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں فرض قراردی ہیں ان کو بجالاؤ،ضائع نہیں کرو۔ اور بہت سی حدیں مقرر کی ہیں، ان سے آگے نہیں بڑھو۔ اور کئی چیزوں سے تم پر شفقت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے ان کے متعلق کریدنہیں کرو۔"
[1] ۔ضعیف ۔سنن الدارقطنی(183/4)