کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 107
اور چلا آیا،عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"اچھا تو تو نے صرف وضو پر ہی اکتفا کیا جبکہ تُو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ " [1] "جو شخص جمعہ کو آئے ، وہ غسل کرے۔" تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا لوگوں کی موجودگی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ترک غسل والے عمل کا انکار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے سمجھنا مشکل ہے کہ غسل جمعہ محض فضیلت والے اعمال میں سے ہے اور اس کوچھوڑنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے گی۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ میں یہ دلیل ہر گز نہیں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس دن اس سے پہلے غسل نہیں کیا تھا اور یہ بھی صحیح ہے لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل سے جو بات سمجھی،جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: "ماكان الا ان سمعت الاذان وتوضات" [2] "میں نے اذان سنتے ہی وضو کیا۔" وہ یہی ہے کہ یقیناً عثمان رضی اللہ عنہ نے اس دن غسل نہیں کیا تھا لیکن کیا اس واقعہ میں دو فریقوں میں سے ایک فریق کی دلیل نہیں؟دو فریقوں سے مراد وہ جو غسل جمعہ کے وجوب کے قائل ہیں اور جو اس کے وجوب کے قائل نہیں بلکہ اس کی افضلیت کے قائل ہیں،کیوں نہیں! اس واقعہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قول سے جو بات فوراً سمجھی اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ترک غسل والے عمل کا انکار کیا،یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے۔ اور اس بات سے بھی خبردار رہنا چاہیے کہ غسل جمعہ نماز جمعہ کی صحت کی شرطوں میں سے کوئی شرط نہیں ہے بلکہ وہ تو جمعہ کے لیے آنے والے شخص کے آداب میں سے صرف ایک واجب ادب ہے۔ تحقیق کا ایک نیا انداز پیچھے بیان کردہ تین احادیث جن سے غسل جمعہ کا وجوب سمجھ میں آتاہے ،یہ وہ
[1] ۔صحیح ۔سنن الترمذی رقم الحدیث(492) [2] ۔شرح معانی الآثار(117/1)