کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 106
میں زیادہ مؤ کد اور محقق ہوگی بہ نسبت اس کے کہ وہ کہیں کہ یہ مستحب ہے۔
اور اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ غسل جمعہ کی افضلیت والی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جمعہ کے تاکیدی حکم سے پہلے کی ہے اور اس غسل جمعہ کو بتدریج واجب قر اردینا اسی طرح ہے جیسا کہ بعض احکام شرعیہ کو بتدریج مشروع قرار دینے میں ملاحظہ کیا گیاہے۔
اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مادی وسائل کی کمی کے اعتبار سے بہت مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے تھے۔پانی،جو ان کی صفائی ستھرائی میں معاون تھا،اس کی بہت کمی تھی اور اُن کو ان حالات میں فوراً غسل جمعہ کے وجوب کا حکم دینا ان کے حق میں بلاشبہ مشکل حکم ہوتا۔
اس کی تائید عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی بعض احادیث میں آنے والے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
"أن النبي صلى اللّٰہ عليه وآله وسلم دخل المسجد يوم الجمعة فوجد منهم رائحة الثياب التي تعرقت فقيل لهم: "لو انكم اغتسلتم يوم الجمعة؟" [1]
"بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں تشریف لائے تو ان کے پسینے سے شرابور کپڑوں سے بدمحسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوحکم دیا:"اگر تم جمعہ کے دن غسل لیا کرو(تو بہتر ہے)۔"
تو یہ غسل جمعہ کو واجب قرار دینے کی تمہیدی ابتداتھی،پھر اس کے بعد کی وہ احادیث ہیں جو ہم نے ابھی ذکر کی ہیں جن میں غسل جمعہ کے واجب ہونے کا حکم دیا گیا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی ان احادیث کا یہی مفہوم سمجھاہے۔وہ ایک جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ایک روایت کے مطابق وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے،تو عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دینا روک دیا تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر سے آنے کا سبب دریافت کریں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ میں نے تو بس اذان سنتے ہی وضو کیا
[1] ۔دیکھیں صحیح البخاری رقم الحدیث(861)صحیح مسلم رقم الحدیث(847)