کتاب: عورتوں كےلیے صرف - صفحہ 102
نیز مسند احمد اور ابو داود کی ایک حدیث میں ہے: "يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ " [1] "وہ اپنے آلہ تناسل اور خصیتین کو دھوئے اورپھر وضو کرے۔" خصیتین کو دھونے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے منی کا خروج منقطع ہوجاتاہے کیونکہ وہ کافی دیر تک نکلتی رہتی ہے۔ بہرحال اگر تیری منی بغیر شہوت کے اچھلے بغیر نکلتی ہے تو یہ منی نہیں مذی ہے اس سے تو صرف وضو کرکے پاکی حاصل کر،یعنی اپنی کپڑوں پر چھینٹے مار اور جسم کے جس حصے کو مذی لگی ہو اس کو دھولے۔رہی وہ رطوبتیں جو عورت سے عادتاً خارج ہوتی رہتی ہیں تو اہل علم کے دو قولوں میں سے ایک قول کے مطابق یہ رطوبتیں نجس نہیں ہیں بلکہ وہ پاک ہیں،اسی موقف کو ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہےاور ابو محمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ یہ بات تو معلوم ومشہور ہے کہ تمام عورتوں کی اس طر ح کی رطوبتیں خارج ہوتی رہتی ہیں پس یہ مسئلہ"عموم بلوی" کی قبیل سے ہوا،یعنی جس میں عام عورتیں ملوث ہیں،تو ثابت یہ ہوا کہ اگر یہ رطوبتیں نجس ہوتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ضرور بیان فرماتے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ رطوبتیں پیشاب وپاخانہ کے دو راستوں میں سے ایک راستے سے نکلنے والی ہیں ،لہذا یہ نجس ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رطوبتیں سبیلین کی بجائے ایک تیسرے راستے سے نکلتی ہیں اور وہ جماع کاراستہ ہے،جیساکہ پیچھے بیان ہوچکاہے۔نیزاس بنیاد پر مناسب یہ ہے کہ یہ رطوبتیں ناقض وضو نہ ہوں کیونکہ جن کاموں کے کرنے سے وضو ٹوٹتا ہے وہ اس آیت میں بیان ہوئے ہیں: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ ﴾ (المائدۃ:6)
[1] ۔صحیح۔ سنن ابی داود رقم الحدیث(208)