کتاب: اولیاء حق و باطل - صفحہ 242
لے گئے ، اور جولقمہ کھاتے تھے اس کے نیچے کھانابڑھ کراس سے زیادہ ہوجاتا ، چنانچہ سب نے پیٹ بھرکرکھایابھی اور کھاناپہلے کی بہ نسبت زیادہ بھی ہوگیا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے جب دیکھاکہ کھاناپہلے سے زیادہ ہے تواسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے ، وہاں بہت سے لوگ آئے اور سب نے شکم سیرہوکرکھایا۔ [1] حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے ، لوگوں نے ان کی لاش کو ڈھونڈا لیکن وہ نہ ملی ، اس لیے کہ قتل ہوتے ہی ان کی لاش اٹھا لی گئی تھی۔عامر بن طفیل نے اسے بلند ہوتے ہوئے دیکھا ، عروہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے خیال میں انہیں فرشتوں نے دفن کیا۔[2] امِ ایمن رضی اللہ عنہما جب ہجرت کیلیے سفر پر نکلیں تو ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا ، پیاس کی شدت سے وہ روزہ سے تھیں ، مگر جب افطار کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے سر پر کوئی آہٹ محسوس کی ، سر اٹھا یا تو دیکھتی ہیں کہ ایک سفید رسی سے ایک ڈول لٹک رہا ہے ، آپ نے اس سے سیراب ہو کر پانی پیا ، پھر بقیہ عمر (زندگی بھر) انہیں کبھی پیاس نہیں لگی۔ [3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو بتایا کہ میں غلام ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ، شیر ان کے ساتھ ہو لیا اور انہیں منزل پر پہنچا کر واپس ہوا۔ [4]
[1] ) بخاری:مواقیت الصلاۃ ، السمر مع الضیف والأہل (۶۰۲)۔ مسلم:الأشربۃ ، اکرام الضیف و فضل آثارہ ، (۲۰۵۷)۔ [2] ) بخاری:الجہاد ، ہل یستأجر الرجل: (۳۰۴۵)۔ [3] ) حلیۃ الاَولیاء لأبی نعیم:۲؍۶۷۔ أسد الغابۃ لابن الأثیر:۵؍۵۶۷۔ صفوۃ الصفوۃ لابن الجوزی: ۲؍۵۴۔ [4] ) حضرتِ سفینہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ، آپ کا نام مہران تھا ، اصلاََ فارسی تھے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خرید کر آزادکر دیا ، مگر آزادی کے لئے شرط یہ لگائی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کر یں گے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بھی روایت کی ہیں۔‘‘ مزید تفصیل کے لئے ، اسد الغابۃ :۲؍۳۲۴ اور الاِصابۃ:۳؍۱۳۲ دیکھئے) وہ ایک مرتبہ کشتی میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ، کشتی ٹوٹ گئی ، اور اس کے اعضاء بکھر گئے ، چنانچہ یہ ایک جزیرہ پر جاکر کنارے لگے ، وہاں اچانک ایک شیر سامنے آگیا ، تو انہوں نے کہا میں سفینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں ، شیر نے اپنا سر ہلایا ، اور ان کے ساتھ ساتھ راستہ بتاتا ہو ا چلا ، جب انہیں عام شاہراہ تک پہنچا دیا ، تو الوداع کہتا ہوا واپس چلا گیا۔ مزید تفصیل لے لئے دیکھئے: دلائل النبوۃ لابی نعیم:۲۱۲ ، و اسد الغابۃ لابن الاَثیر: ۲؍۳۲۴ ، مجمع الزوائد للھیثمی:۹؍۳۶۶۔