کتاب: اولیاء حق و باطل - صفحہ 162
اور فرشتوں سے واقف ہی نہ تھے ، اسی لیے ارسطوکی کتابوں میں سرے سے اس کاکوئی ذکرہی نہیں ملتا۔ ان کا علم زیادہ ترطبعیات کے باب میں ہے۔ الٰہیات کاجہاں تک تعلق ہے اس باب میں ان کاصحیح علم کم اور غلط زیادہ ہے۔ ان کے بالمقابل یہودونصاریٰ نسخ وتحریف کے باوجود الٰہیات میں ان سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے ، ابن سیناء وغیرہ متأخرین فلاسفہ نے قدیم فلاسفہ اور رسولوں کی تعلیمات کوخلط ملط کردیناچاہا ، چنانچہ کچھ اصول جہمیہ سے اور کچھ معتزلہ سے لے لیے اور ان کوفلاسفہ کے اقوال کے ساتھ ملالیااور ایک ایسا مذہب تیارکرلیاجس کی جانب فلاسفہ اقوام خودکومنسوب کرتے ہیں ، اس مذہب کی بعض خرابیوں اور تناقضات کا ذکر ہم نے دوسری جگہ کردیاہے۔ [1] انہوں نے جب دیکھاکہ موسیٰ اور عیسی علیہما السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پیامبروں کی بات نے دنیاکومسحورکردیاہے اور یہ اعتراف ہوچکاہے کہ جس ذریعہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے وہ دنیاکے تمام ذرائع میں عظیم ترین ذریعہ ہے ، نیزیہ بات بھی سامنے آگئی کہ انبیاء علیہم السلام نے فرشتوں اور جنوں کاتذکرہ کیاہے توانہوں نے اس علم اور اپنے یونانی بزرگوں کے درمیان جو اﷲ ، ملائکہ ، آسمانی کتابوں اور رسولوں کی معرفت سے بے گانہ تھے توفیق پیداکرناچاہا۔ ان حضرات نے عقول عشرہ ثابت کئے ، جس کانام انہوں نے مجردات اور مفارقات رکھا ، اس کی اصل جسم سے نفس کی فرقت اختیار سے ماخوذہے ، چنانچہ انہوں نے مفارقات
[1] ) مجموع فتاویٰ: ۹؍۱۳۳ ، ۱۳۵۔ الجہمیہ: جہم بن صفوان کے متبعین کوجہمیہ کہاجاتاہے ، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جواﷲ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی نفی کرتاہے اورکہتاہے کہ انسان اپنے اعمال کے لئے مضطرومجبورہے ، اورکہتے ہیں کہ معرفت باﷲ ہی کانام ایمان ہے ، اورعدم معرفت کانام کفر ہے ۔ امت کے مختلف طبقے اس فرقہ کے کفرپر متفق ہیں۔ دیکھئے : الملل والنحل للشہرستانی ، بہامش الفصل لابن حزم ۱؍۱۰۹ ، الفرق بین الفرق ، ص (۲۱۲) معتزلہ: واصل بن عطا ء کے ،متبعین کوکہاجاتاہے ۔ اس کانام معتزلہ اس لئے پڑاکہ واصل بن عطا ء حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سے الگ ہوگیاتھا ، اس کے نزدیک کبیرہ گناہ کامرتکب اگر بغیرتوبہ کئے مرجائے توہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ المصدر السابق۔