کتاب: اولیاء حق و باطل - صفحہ 145
رحمت سے دوحصے بخش دے گا ، اور تمہارے لیے ایسانور پیداکرے گا جس کے ذریعہ تم چلوپھروگے اور تمہیں معاف فرمادے گا اور اﷲ بخشنے والارحم کرنے والاہے۔ ‘‘
اور فرمایا:
وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا )(الشوریٰ:۵۲)
’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کواتاراہے ، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ، لیکن ہم نے اسے ایک نوربنایاہے ، اس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ ‘‘
یہ شخص ان مومنین میں سے ہے جن کے بارے میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت ترمذی میں واردہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِتَّقُوا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ۔)) [1]
’’مومن کی فراست سے ہوشیاررہوکیونکہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتاہے۔ ‘‘
اس سے پہلے بخاری کی اس حدیث کاذکرآچکاہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ فرماتاہے : میرابندہ نوافل کے ذریعہ میراتقرب حاصل کرتاجاتاہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں اور جب اس سے محبت کرتاہوں تومیں اس کاکان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے ، اس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے ، اس کاہاتھ
[1] ) ترمذی: ابواب تفسیرالقرآن ، تفسیرسورۃا لحج ، (۵۱۳۳)۔ ترمذی نے کہاہے:یہ حدیث غریب ہے ، جس کوہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ ہیثمی کہتے ہیں:اسے طبرانی نے ابوامامہ سے روایت کی ہے اوراس کی سندحسن ہے۔ مجمع الزوائد:(۱۰؍۲۶۸) وتاریخ بغداد: ( ۷؍۲۴۲)۔