کتاب: اولیاء حق و باطل - صفحہ 123
نہ مَأْثُوْم (گنہگار) ، اس کی ہربات کی اتباع کی جائے اور نہ ہی اس کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے اس پرکفریافسق کاحکم لگایاجائے۔ لوگوں پرواجب وہی چیز ہے جواﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجی ہے ، لیکن اگرکوئی شخص بعض فقہاء کے قول کے مخالف ہو اور دوسروں کے موافق ہو توکسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس پر قول مخالف کو لازم کرے اور کہے کہ اس نے شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل میں چنداحادیث: صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، آپ نے فرمایا: ((قَدْ کَانَ فِی الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَاِنْ یَّکُنْ فِیْ أُمَّتِیْ أَحَدٌ فَعُمَرُ مِنْہُمْ۔)) [1] ’’تم سے پہلی امتوں میں محدّث گزرے ہیں ، اگرمیری امت میں کوئی محدّث[2]ہوگاتووہ عمرہوں گے۔ ‘‘ نیز ترمذی وغیرہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیاہے کہ آپ نے فرمایا: ((لَوْ لَمْ أُبْعَثْ فِیْکُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ )) [3]
[1] ) بخاری:فضائل الصحابۃ ، مناقب عمر بن الخطاب رضی ا ﷲ عنہ (۳۶۸۹)۔ مسلم:فضائل الصحابۃ ، من فضائل عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ (۲۳۹۸) [2] ) محدث کی تاویل میں اختلاف کیاگیاہے ، بعض نے کہاہے:جس پرالہام ہوتاہو ، اکثرکی یہی رائے ہے اورایک قول یہ ہے کہ ’’ محدث‘‘ جس کاگمان(اندازہ)سچ ثابت ہوتاہو ، اوراس کے دل میں اﷲ کی طرف سے کوئی بات ڈال دی جاتی ہے نیزکہاگیاہے کہ جس کی زبان پربغیرقصدوارادہ کے حق جاری ہوجاتاہو ، یہ بھی کہاجاگیاہے کہ جس سے فرشتوں نے بغیرنبوت کے کلام کیاہو۔ [3] ) یہ حدیث ترمذی میں نہیں ہے ، بلکہ اسے دیلمی نے ابوہریرہ رضی اﷲعنہ سے روایت کی ہے ، حافظ عراقی کہتے ہیں: یہ حدیث منکرہے ، شوکانی الفوائد المجموعہ میں کہتے ہیں:اسے ابن عدی نے حدیث بلال سے روایت کیاہے ، اوراس کی سند میں ایک راوی ہے جوحدیثیں گھڑتے تھے ، اورامام احمد ، ترمذی ، حاکم نے حدیث رقبہ بن عامرسے اورطبرانی نے عصمہ بن مالک سے جویہ حدیث ’’لَْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ ‘‘(اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتاتوعمربن الخطاب ہوتے) تویہ حدیث حسن ہے۔