کتاب: اولیاء حق و باطل - صفحہ 122
صلہ ہے اور اس کی خطامعاف کردی ، لیکن وہ مجتہدجس کا اجتہاد درست نکلے دواجرکامستحق ہوتا ہے لہٰذا وہ پہلے سے افضل ہے۔ الہام کی صحت کامعیار: لہٰذاچونکہ ولی اﷲ کے لیے غلطی کاامکان ہے تولوگوں پراس کی تما م باتوں پرایمان لانا ضروری نہیں ہے ، البتہ نبی ہوتواور بات ہے۔ ولی اﷲ کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ ان تمام باتوں پراعتمادکرے جواس کے دل پرالقاء ہوں ، نہ ہی ان چیزوں پربھروسا کرے جوالہام ، محادثہ[1]اور خواب کے طورپردیکھے ، بلکہ ضروری ہے کہ ان سب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کسوٹی پرپرکھے ، اگرموافق ہوں توقبول کرے اور اگرمخالف ہوں توقبول نہ کرے ، اور اگر موافق یامخالف ہونامعلوم نہ ہوتوتوقف کرے۔ ولی کوسمجھنے میں لوگوں کی قسمیں: اس باب میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں ، دوکناروں پراور ایک بیچ ہے۔ ایک وہ قسم ہے جوکسی شخص کواﷲ کاولی مان لیتی ہے توہراس بات سے وہ اتفاق کرلیتی ہے جس کے بارے میں اس کاولی اپنے قلب کے ربانی واردات کی خبردیتاہے ، اور جوکچھ اس کاولی کرتاہے اسے تسلیم کرلیتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جوکسی شخص کے قول یافعل کو موافق شرع نہ پائے ، تواس کو سرے سے ولایت ہی سے خارج کر دے ، گو وہ مجتہد مخطی کیوں نہ ہو ، لیکن’’ خَیْرُ الْاُمُوْرِ أَوْسَطُہَا ‘‘ کے بمصداق صحیح طریقہ یہ ہے کہ اجتہاد میں غلطی ہوجائے تواﷲ کے ولی کونہ معصوم سمجھاجائے ،
[1] ) محادثہ :صوفیاء کی اصطلاح میں اﷲ رب العلمین کے عارفین کے ساتھ عالم المک والشہادۃ سے خطاب کوکہتے ہیں ، اس طرح سے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کودرخت کی آڑ سے ندادی تھی۔ میں کہتاہوں کہ صحیح یہ ہے کہ ’’محادثہ‘‘ الہام(دل میں بات ڈالنا)کے معنیٰ میں ہے ، اورمحدث ملہم(جس کے دل میں بات ڈالی جائے)پس الہام غیرانبیاء کوبھی حاصل ہوتاہے ، جیساکہ عمررضی اﷲ عنہ کی حدیث میں وارد ہے اورجرجانی نے محادثہ کی جوتعریف کی ہے اس سے مراد وہ تکلیم(گفتگو)ہے جومحض بعض انبیاء علیہم السلام کے لئے ہی ثابت ہے ، لہذامحادثہ کی تفسیر تکلیم سے کرنادرست نہیں۔