کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 81
عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ط قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ط فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ط وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ﴾(یوسف :7۔18 ) تر جمہ : یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، جب کہ انہوں نے کہا : یوسف اور اس کا بھائی ( بنیامین ) بہ نسبت ہمارے، ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم (طاقتور ) جماعت ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابّا صریح غلطی میں ہیں۔ یوسف کو یا تو مار ہی ڈالو، یا کسی (نا معلوم ) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کی توجّہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے، اس کے بعد تم نیک بن جانا۔ان میں سے ایک نے کہا : یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنویں ( کی تہہ )میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی ( آتا جاتا ) قافلہ اٹھالے جائے، اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو۔ انہوں نے کہا : ابّا جان ! آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ؟ ہم تو اسکے خیر خواہ ہیں، کل آپ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب کھائے پئے اور کھیلے، اس کی حفاظت کے ہم ذمّہ دار ہیں۔ ( یعقوب علیہ السلام نے ) کہا : اسے تمہارا لے جانا مجھے سخت صدمہ دے گا اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ تمہاری غفلت کی وجہ سے اسے بھیڑیا نہ کھا جائے۔ انہوں نے جواب دیا : اگر ہم جیسی ( زور آور ) جماعت کی موجودگی میں اسے بھیڑیا کھا جائے تو ہم بالکل نکمّے ہی ہوئے۔ پھر جب وہ اسے لے چلے اور سب نے مل کر ٹھان لیا کہ اسے غیر آباد گہرے کنویں کی تہہ میں پھینک دیں، ہم نے اس (یوسف ) کی طرف وحی کی کہ یقیناً ( وہ وقت آئے گا کہ ) تو انہیں اس ماجرے کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے بھی نہ ہوں گے۔ اور عشاء