کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 77
باپ اور میری قوم نے کی.( تفسیر قرطبی 9؍368 ) 6۔عام طور پر لوگ اپنی اولاد کو وہاں بساتے ہیں جہاں دنیوی وسائل واسباب کی کثرت ہو، پانی کی فراوانی ہو، اناج، سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں ہوں، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معیارِ انتخاب یہ نہ تھا، انہوں نے اپنی اولاد کو وہاں آباد کیا جہاں پانی تھا نہ کھیتی، نہ دنیوی وسائل تھے نہ ہی سامانِ تعیّش تھا۔لیکن وہ مقام حرمت والے گھر کی جگہ تھی اور وہاں اولاد کے بسانے میں ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ اﷲ کے مقدس گھر میں نماز قائم کریں. دعا فرماتے ہیں : ﴿ رَبَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ بِوَادٍ غَیْرَ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ ﴾(إبراہیم :40) تر جمہ : اے ہمارے رب ! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے باعزّت گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کھیتی نہیں ہوتی، اے ہمارے پروردگار !غرض صرف یہی ہے کہ وہ نماز قائم کریں، اسلئے تو لوگوں کے دلوں کو انکی طرف پھیر دے اور انہیں (انواع واقسام کے)پھلوں سے روزی عطا کر،تاکہ وہ ہمیشہ تیرے شکر گذار رہیں. حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس فیصلے میں ان آباء واجداد سے یکسر مختلف تھے جو اپنی اولاد کے لئے صرف دنیوی مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اس بات کوبالکل نظر انداز کردیتے ہیں کہ ان کے فیصلوں سے ان کی اولاد کے دین، اخلاق اور آخرت کے بنانے اور بگاڑنے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔