کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 73
کا ہوجائے تو باپ اس کی شادی کردے، پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر کہے :میں نے تیری تربیت کی، تجھے تعلیم دی، تیری شادی کردی، اور اب میں تیری دنیوی آزمائش اوراخروی عذاب سے اﷲ کی حفاظت طلب کرتا ہوں۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص اپنے بچے کی نافرمانی کی شکایت لے کر آیا آپ نے اس کے لڑکے کو بلایا اور اسے اپنے باپ کی نافرمانی اور اس کے حقوق سے لاپرواہی پر ڈانٹ پلائی، لڑکے نے پوچھا : امیر المؤمنین ! کیا بیٹے کا باپ پربھی کوئی حق ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ اس نے کہا : اگر ہے تو آپ بتائیں ؟ آپ نے فرمایا " أَنْ یَنْتَقِیَ أُمَّہُ، وَیُحْسِنَ اسْمَہُ، وَیُعَلِّمَہُ الْقُرْآنَ " اس کے لئے ایک پاکیزہ ماں کا انتخاب کرے، اس کا نام اچھا رکھے اور اسے قرآن مجید سکھائے۔ لڑکے نے کہا : امیر المؤمنین ! میرے باپ نے ان تینوں حقوق میں سے ایک بھی ادا نہیں کیا، میری ماں ایک مجوسی کی سوڈانی لونڈی تھی، اور انہوں نے میرا نام جُعل( گوبر میں رہنے والا کالا کیڑا ) رکھا، اور مجھے قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں سکھایا،، حضرت عمررضی اللہ ع نہ یہ سن کر باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : "جِئْتَ إِلَيَّ تَشْکُوْ عُقُوْقَ ابْنِکَ، وَقَدْ عَقَقْتَہُ قَبْلَ أَنْ یَعُقَّکَ وَأَسَأْتَ إِلَیْہِ قَبْلَ أَنْ یُّسِيْئَ إِلَیْکَ " تم اپنے لڑکے کی نافرمانی اور اسکے بُرے سلوک کی شکایت لے کر آئے ہو، جب کہ تم نے اسکے حقوق کے بارے میں( رب کی )نافرمانی کی اور اس سے پہلے کہ وہ تمہارے ساتھ برا معاملہ کرتا تم نے خود اسکے ساتھ برا سلوک کیا۔ ( تربیۃ الأولاد فی الإسلام : 137)