کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 32
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک رات مدینہ منورہ میں گشت لگا رہے تھے کہ لوگوں کے حالات سے باخبر ہوں، سنا کہ ایک گھر سے کچھ آوازیں آرہی ہیں، گھر کی دیوار سے کان لگا کر کھڑے ہوگئے، سنتے ہیں کہ ایک ماں اپنی جوان لڑکی سے کہہ رہی ہے : " بیٹی ! آج رات اونٹنیوں نے دودھ کم دیا ہے اس لئے تم تھوڑا سا پانی ملادو تاکہ گاہکوں کو دودھ برابر مل جائے"بیٹی نے جواب دیا :" امّی جان ! امیر المؤمنین کا حکم ہے کہ فروخت کرنے کے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے " ماں نے کہا : " اس رات کے اندھیرے میں کونسا امیر المؤمنین ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے ؟بیٹی اللہ والی تھی، اس نے جواب دیا : "اگر امیر المؤمنین عمر بن خطاب نہیں دیکھ رہا ہے تو عمر کا رب تو ضرور دیکھ رہا ہے، میں یہ جرم ہرگز نہیں کرسکتی"۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب اس لڑکی کی یہ بات سنی تو روپڑے، دوسرے دن اس لڑکی کے متعلق معلومات جمع کیں،پتہ چلا کہ لڑکی غیر شادی شدہ ہے، پھر اپنے لڑکوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا :" میرے بچو! گذشتہ رات میں نے ایک دین دار لڑکی کی یہ یہ باتیں سنیں، اللہ کی قسم اگر مجھ میں جوانی ہوتی تو ضرور میں اسے اپنے گھر میں بیوی بنا کر لاتا، لیکن میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں، اب مجھ میں یہ صلاحیت نہیں کہ میں کسی جوان لڑکی سے شادی کروں، لیکن میں نہیں چاہتا کہ وہ لڑکی ضائع جائے، بلکہ وہ میری بہو بن کر میرے گھر میں آئے"آپ کی یہ باتیں سن کرعاصم بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :"ابّا جان ! اس لڑکی سے میں شادی کروں گا" آپ نے اس نیک لڑکی کا بیاہ اپنے بیٹے سے کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس لڑکی سے ایک بچی ہوئی، اور پھر اس لڑکی سے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ پیدا ہوئے، جنہیں