کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 18
( بخاری:1359 مسلم :2658)ترجمہ : ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس حدیث میں بچوں کو ایک ایسا کورا کاغذ بتایا گیا ہے کہ جس پر جو نقش ڈالا جائے وہ ثبت ہوجاتا ہے، اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے کونسا رُخ اپناتے ہیں ؟ ان معصوموں کی جسمانی تربیت کے ساتھ روحانی اور مذہبی تربیت کی جائے تو آگے چل کر ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ ساتھ والدین کے بھی مطیع وفرماں بردار ہوں گے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ تربیت کا مفہوم عام لوگوں نے یہی سمجھ لیا ہے کہ بچوں کی جسمانی تندرستی کی طرف توجہ دی جائے،انہیں اچھی غذا،لباس، سواری،سکول وکالج اور رہائش مہیّا کی جائے، جس کی وجہ سے انسان چاہتا ہے کہ ہر طرح کی مصیبت خود جھیل لوں لیکن میری اولاد پر مصیبت کا سایہ بھی نہ پڑے، اسی لئے وہ خود کھردُرا لباس پہنتا ہے لیکن اپنی اولاد کو نفیس کپڑا پہنانے کی کوشش کرتا ہے، موٹا جھوٹا خود کھاتا ہے لیکن اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر غذا کھلاتا ہے۔ لیکن والدین کی اس قربانی کا نتیجہ اکثر وہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے، والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا لڑکا نیک، فرمان بردار، محنتی، جفا کش اور ان کے بڑھاپے کی لاٹھی اور سہارابنے، لیکن افسوس کہ بہت کم ایسے خوش نصیب والدین ہیں جنہیں یہ سعادت حاصل ہوتی ہے، اکثر ماں باپ اپنے بچوں کی جوانی اور اپنے بڑھاپے میں اولاد کی جانب سے لاپرواہی، نافرمانی، انحراف، بد سلوکی اور ایذا رسانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بقولِ شاعر :