کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 17
ندامت ورُسوائی کا باعث بن جاتی ہیں، حضرت نوح علیہ السلام کی مثال موجود ہے جب انہوں نے اپنے کافر لڑکے کنعان کی غرق یابی کے وقت اﷲ تعالیٰ سے اسے بچانے کی فریاد کی، لیکن اﷲ تعالی نے یہ کہتے ہوئے اس سفارش سے منع کر دیا : ﴿ قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ ﴾ ( ھود : 46 ) ترجمہ : فرمایا : اے نوح ! یہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو مجسّم بد عمل ہے، تو اس بات کا مجھ سے سوال نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ نادانوں میں سے نہ ہوجا۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اولاد کو کہیں آزمائش قرار دیا اور کہیں دشمن کہتے ہوئے ان سے چوکنّا رہنے کی ہدایت کی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :﴿یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّ لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ﴾ترجمہ : اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے چوکنّا رہو۔﴿ اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ ﴾ ( طلاق : 14۔15 ) تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بچے والدین کے لئے اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں،اور یہ اپنی فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، انہیں نکوکار یا بدکار، مومن یا کافر، صالح یا فاسق وفاجر بنانے میں والدین کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے، اسی لئے رسولِ رحمت،مربیٔ انسانیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ "