کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 157
دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور فحش اور ننگی گالیوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو اولاد پر بھی اسکا اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ الفاظ جو ہمیشہ ماں باپ کی زبان سے نکلتے رہتے ہیں بُرے نہیں ہیں، پھر وہ بھی بے جھجک انہیں گالیوں کی ریہر سل شروع کردیتے ہیں، شروع میں جب بچے چھوٹے رہتے ہیں انکی معصوم زبان سے یہ گالیاں بعض والدین کو بڑی پیاری پیاری لگتی ہیں اور وہ انہیں سن سن کر لٹو ہوجاتے ہیں، لیکن یہی بچے جب بڑے ہوکر اپنے والدین کو گالی بکنا شروع کرتے ہیں، تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ انکی غلط تربیت نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے
2) بُری صحبت : بُرے لڑکے عمومًا بازاروں،کلبوں،گلیوں، نکّڑوں اور شاہراہوں کی پیداوار ہوتے ہیں، جب بچہ اپنا زیادہ وقت ان جگہوں پر صرف کرنے لگتا ہے تو پھر ان سے وہ ان گندی گالیوں اور فحش کلمات کو سیکھتا ہے اور وہ انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بُرے اخلاق اور بُری تربیت پر پروان چڑھنے لگتا ہے، والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان مقامات سے حتی الإمکان بچانے کی کوشش کریں، اور بچوں کو بات کرنے کا طریقہ، ادب وتہذیب کا سلیقہ سکھائیں، اور انہیں بزرگوں، والدین اور اپنے سے چھوٹوں کو مخاطب کرنے کے الفاظ سکھائیں،کیونکہ بچوں کو علم وادب، حُسنِ کلام اور تہذیب وشائستگی سکھانے سے بعض اوقات بچے وہ کارنامے انجام دیتے ہیں جنہیں انجام دینے کی بڑوں میں ہمت نہیں ہوتی، تاریخ میں اس طرح کے کئی واقعات مذکور ہیں، جن میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے :
تہذیب وشائستگی کا ایک نمونہ
ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں مختلف علاقوں میں سخت قحط پڑا، خلیفۂ وقت سے