کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 151
"أَیُّھَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ قَبْلَکُمْ بِھٰذَا، إِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الضَعِیْفُ أَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَإِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ۔ وَأَیَّمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا " ثُمَّ أَمَرَ فَقُطِعَ یَدُہَا" ( بخاری :3475 مسلم :1688) تر جمہ : لوگو ! تم سے اگلی امتیں اسی لئے برباد کردی گئیں کہ جب ان میں کوئی گرا پڑا شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور جب یہی کام کوئی بڑے گھر کا آدمی کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے. اﷲ کی قسم ! اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہ ) بھی چوری کرتی تو میں اسکے ہاتھ کو کاٹ دیتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو طلب کیا اور اس کا ایک ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔
بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ اس عورت کے خاندان والوں نے جن کے مال کو اس نے چرایا تھا انہیں راضی کرلیا، انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم نے اسے معاف کردیا تو آپ بھی درگذر فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب اس کا وقت گذر گیا، یہ موقعہ، معاملہ میرے سامنے پیش ہونے سے پہلے تھا، اب جب کہ معاملہ میرے پاس آگیا ہے تو سوائے حد قائم کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر اس عورت نے اپنے اخلاق کو سنوارا اور نیک ہوگئی، وہ کبھی کبھی میرے گھر آتی اور ضرورت بیان کرتی تو میں اس کی ضرورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پوری کرادیتی تھی۔ (بخاری )
اسلام نے معاشرہ سے اس عادت بد کو دور کرنے کے لئے سخت سزائیں مقرر کی ہیں، چور چاہے مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿ اَلسَارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ