کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 150
حیات بنا ہوا ہو، کیونکہ اس جیسی خبیث عادات کے لئے ایک مومن معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں۔ اﷲ نہ کرے، اگر بچہ یا بچی سے چوری کا عمل سرزد ہوگیا، والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچے کو سمجھائیں، اور انہیں اس چیز کو جس سے چرایا ہے واپس کرادیں، اگر وہ اس سے باز نہ آئیں تو انہیں سزا دیں، تاکہ اس قبیح عمل پر بچوں کی کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہ ہو۔
رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ ہمارے لئے بہترین اسوہ ونمونہ ہے، اس طرح کا ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء مبارکہ میں پیش آیا تھا کہ خاندانِ قریش کے ایک معزز قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے جس کا نام فاطمہ تھا چوری کا ارتکاب کیا، اوراس کا معاملہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا،بنی مخزوم کے لوگ چاہتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اغماض کرجائیں، تاکہ اس عورت کا ہاتھ کاٹے جانے کی وجہ سے بنی مخزوم اور قبیلہ قریش کی جو بدنامی ہوگی اس سے وہ بچ جائیں، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بھی قبیلہ قریش سے ہی تھا اس لئے وہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان کے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے چشم پوشی سے کام لیں۔ لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ مونہہ اٹھائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی بات کریں، اس لئے انہوں نے اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کو سفارشی بنا کر آپ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہمانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں سفارش کی اور چشم پوشی کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا : "أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ" ؟ کیا تم حدود اﷲ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :