کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 141
نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے ہوئے دوکان میں اپنے بھتیجے کو چھوڑا اور اسے تمام کی قیمتیں بھی سمجھادیں، اس دوران ایک بدو شخص آیا، اس نے چار سو درہم کا ایک جوڑا مانگا، لڑکا چالاک تھا اس نے اسے دوسودرہم والا جوڑا دکھایا،اس نے اسے پسند کرلیا اور خوشی خوشی چار سو درہم ادا کرکے چلا گیا، راستے میں اسے یونس بن عبید رحمہ اللہ مل گئے، انہوں نے اس کپڑے کو پہچان لیا جو ان کی دوکان سے خریدا گیا تھا، آپ نے اس بدو سے پوچھا :" تم نے اسے کتنے میں خریدا " کہا :" چار سو درہم میں" آپ نے فرمایا :" یہ دوسو درہم سے زیادہ کا نہیں ہے، اس لئے تم اسے واپس کر آؤ" اس نے کہا : "حضرت ! یہ ہمارے ہاں پانچ سو درہم کا ملتا ہے اور میں نے اسے اپنی خوشی سے خریدا ہے " آپ نے فرمایا :"میرے ساتھ واپس چلو، اس لئے کہ دین میں خیر خواہی کا مقام دنیا اور اس میں جوکچھ ہے اس سے بہتر ہے "پھر آپ اپنی دوکان پر آئے اور اسے دو سو درہم واپس کیا، اپنے بھتیجے کو خوب ڈانٹا اور فرمایا:"أَمَا اسْتَحْیَیْتَ ؟ أَمَا اتَّقَیْتَ اللّٰہَ ؟ تَرْبَحُ مِثْلَ الثَّمَنِ وَتَتْرُکَ النُّصْحَ لِلْمُسْلِمِیْنَ "کیا تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی ؟ کیا تم میں کچھ بھی اﷲ کا خوف نہیں ؟ اصل قیمت کے برابر فائدہ کھاتے ہو اور مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی نہیں کرتے ؟ افسوس ایمانداری کی یہ تابناک مثالیں آج کل صرف کتابوںمیں ہی باقی رہ گئی ہیں، رہا مسلم معاشرہ، وہ بقول :"مسلمانی در کتاب ومسلمانان درگور " (یعنی اسلام کتابوں میں ہے اور مسلمان قبروںمیں) کی زندہ مثال بن کر ساری دنیا میں زوال وذلت کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ إنّا اللّٰہ وإنّا إلیہ راجعون۔