کتاب: اولاد کی اسلامی تربیت - صفحہ 140
بن جائیں گے، جیسا کہ گذشتہ اوراق میں گذر چکا ہے کہ ایک ماں نے جب اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کے لئے کہا تو اس نے یہ کرارا جواب دیتے ہوئے اس کام کو کرنے سے انکار کردیا کہ :" اگرچہ عمر بن خطاب نہیں دیکھ رہا ہے لیکن عمر کا رب تو ضرور دیکھ رہا ہے، اس لئے میں یہ کام نہیں کرسکتی"۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔ عبد اﷲ بن دینار کہتے ہیں :
" میں عمررضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ کیلئے روانہ ہوا، راستے میں ایک چرواہا پہاڑ ی کی ڈھلوان سے اترتا ہوا نظر آیا، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آزمانے کیلئے کہا : "یَا رَاعِیْ ! بِعْنِیْ شَاۃً مِنْ ھٰذِہِ الْغَنَمِ " اے چرواہے ! ان بکریوں میں سے ایک مجھے فروخت کردے " اس نے کہا : "میں مالک نہیں غلام ہوں "عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کوئی بات نہیں، مجھے فروخت کرکے اپنے مالک سے کہہ دے کہ اس بکری کو بھیڑئے نے کھا لیا " اس پر چرواہے نے کہا :" فَأَیْنَ اللّٰہُ " حضرت ! تو پھر اﷲ کہاں ہے ؟ عمر رضی اللہ عنہ روپڑے، اور اسکے ساتھ چل کر اسکے مالک سے بات کی اور اسے خرید کر آزاد کردیا اور فرمایا :"أَعْتَقَتْکَ فِی الدُّنْیَا ہٰذِہِ الْکَلِمَۃُ، وَأَرْجُوْ أَنْ تُعْتِقَکَ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ عَذَابِ النَّار" اس ایک لفظ نے تجھے دنیا میں غلامی سے نجات دلایا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہی لفظ آخرت میں بھی تجھے آتش دوزخ سے نجات دلائے گا "۔
امام غزالی رحمہ اﷲ"إحیاء العلوم " میں لکھتے ہیں :"إمام یونس بن عبید رحمہ اﷲ [1] کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے، آپ کی دوکان میں مختلف قسم کے لباس، چادریں اور جوڑے تھے، ان میں سے کچھ کی قیمت چار سودرہم اور کچھ کی دوسو درہم تھی، آپ
[1] یونس بن عبیدالعبدی البصری ، مشہور محدث ، امام ، قدوہ، ثقہ اور حجت ہیں، 139ھ میں انتقال ہوا