کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 99
اسے دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیتی ہے یہ بات بھی عقل کے خلاف ہے اس لیے ایک انسان جو ابھی وضوکرکے فارغ ہوا ہے صرف خروج ہوا کی بناء پر دوبارہ وضوکرتا ہے حالانکہ خروج ہوا سے اس کی طہارت پر کوئی اثر نہیں پڑا تو اس کا سیدھا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اللہ رب العالمین کا یہی حکم ہے تو یہاں عقل کو وحی الٰہی(قرآن)کے تابع کردیا جا تا ہے۔اور اگر ایسی ہی کوئی بات جب صحیح حدیث سے ثابت ہو تو یہاں عقل یاد آجاتی ہے اور عقل کو بنیاد بناکر حدیث کو رد کردیا جاتا ہے جوکہ بلکل غلط ہے کیونکہ صحیح حدیث بھی وحی الٰہی ہے۔
اب ہم اس اصول کا جوب دیں گے جو بالعموم محدثین سے منسوب کرکے بیان کیا جاتا ہے کہ حدیث اگر عقل یا قرآن کے خلاف ہو تو اسے رد کردینا چاہیے مثلا۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ قول بیان کیا ہے کہ وہ حدیث جو عقل یا قرآن کے خلاف ہو یا اصول کے متنا قض ہو وہ حدیث صحیح نہیں ہے(تدریب الراوی صفحہ ۱۰۰)سب سے پہلے یہ بات ہے کہ اس قول کو معترضین نے بغیر سیاق وسبا ق نقل کیا ہے(۱)یہ قول ہر حدیث سے متعلق نہیں ہے کہ جو حدیث عقل کے خلاف آئے اسے رد کردیا جائے بلکہ اس سے مراد ائمہ حدیث کے نزدیک یہ ہے کہ موضوع حدیث عقل کے خلاف ہوتی ہے(مثلا۔سفینہ نوح نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نما ز اداء کی)اب یہ ایک موضوع روایت ہے اور عقل کے خلاف ہے محدثین اس حدیث کو موضوع کہا ہے حدیث کو دیکھ کر اس کو موضوع کہنے کی صرف یہ وجہ نہیں کہ یہ عقل کے خلاف ہے بلکہ موضوع حدیث کی علامت یہ ہے کہ وہ عقل اور قرآن کے خلاف ہوتی ہے۔
محدثین رحمہ اللہ کسی حدیث کو موضوع کا حکم اس کی سند کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث ہے اس حدیث کی سند کے اندر عبدالرحمان بن زید بن اسلم راوی ہے جواپنی کذب اور افتراء کی وجہ سے مشہور ہے(تہذیب التہذیب)