کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 91
غامدی صاحب لیجئے ہم نے آپ کے اصول سے الشیخ والشیخۃ(مؤطا امام مع شرح الزرقانی ج ۴ص۱۷۸کتاب الحدود باب ماجاء فی الرجم)کی فصاحت وبلاغت اور اسکا حدیث ہونا ثابت کردیا۔
اصول غامدی:۔
آگے مزید حدیث کی فہم کے مبادی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے دین میں قرآن کا جو مقام ہے وہ ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت ورسالت میں جو کچھ کیا اسکی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے لہٰذا حدیث کے بیشتر مضامین کا تعلق اس سے وہی ہے جو کسی چیز کی فرع اس کی اصل سے اور شرح کا متن سے ہوتا ہے اصل اور متن کو دیکھے بغیر اس کی شرح اور فرع کو سمجھنا ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئیں ہیں ان کا اگر وقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے۔عہد رسالت میں رجم کے واقعات کعب بن اشرف کا قتل عذاب قبر اور شفاعت کی روایتیں’’امرت ان اقاتل الناس اور من بدل دینہ فاقتلوہ ‘‘جیسے احکام اس لئے الجھنوں کا باعث بن گئے کہ انہیں قرآن میں انکی اصل سے متعلق کرکے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی حدیث کے فھم میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی بیشتر الجھنیں بالکل صاف ہوجاتی ہیں۔(اصول ومبادی میزان،ص۷۲۔۷۱)
جواب:۔
افسوس کی بات ہے کہ غامدی صاحب نے کم علمی کی حد کردی ہے بغیر سوچے سمجھے حدیث کو فروع کہہ رہے ہیں حالانکہ حدیث دین کا اصل ماخذ ہے یہاں غامدی صاحب فرمارہے ہیں کہ