کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 90
یہ لغت کے بہت بڑے امام کا بیان ہے ایک طرف لغت کے بڑے امام ہیں جو لفظ ’’شیخۃ‘‘کو عربی کا ادبی اور فصیح وبلیغ لفظ کہہ رہے ہیں اور ایک طرف وہ شخص ہے جو عربی زبان سے صحیح طور پر واقف ہی نہیں ہے جس نے قرآن کی اس آیت ’’فانہ رجس ‘‘(الانعام آیت ۱۴۵)کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’یہ سب ناپاک ہیں ‘‘حالانکہ ’’فانہ ‘‘میں ضمیرمفرد ہے اور اس سے پہلے خنزیر کے گوشت کا ذکر اور ضمیر اسی کی طرف لوٹتی ہے اس کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ وہ(یعنی خنزیر کا گوشت)ناپاک ہے لیکن غامدی صاحب نے عربی زبان سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیتے ہوئے اس عبارت کا غلط ترجمہ کیا ہے۔ قارئین محترم!خود فیصلہ کریں کہ کس کی بات درست ہے ان کی جنہیں اللہ نے عربی لغت کا بے پناہ علم عطاء کیا اور ان کے علم کی بناء پر انہیں امام الغتہ میں شمار کیا جانے لگا یا وہ جس کی عربی اتنی کمزور ہے کہ قرآن پاک کا ترجمہ بھی صحیح طرح نہیں کرسکتا۔ اور ابن منظور نے اس کے بعد شاہد کے طور پر یہ شعر بھی پیش کیا ’’قال عبید بن الأبرص: کانھا لقوۃ طلوب تیبس فی وکرھا القلوب باتت علی أرم عزوبا کانھا شیخۃ رقوب (لسان العرب جلد ۷ص۲۵۴) اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ لفظ ’’شیخۃ‘‘ادبی اور فصیح لفظ ہے اور میرا خیال ہے کہ اب غامدی صاحب کو بھی اس لفظ کی فصاحت وبلاغت اور ادبیت اور اسکے ذوق عربیت کو تسلیم کرکے اس حدیث کو مان لینا چاہئے کیونکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہ اشعار ہی قرآن مجید کے بعد زبان(لغت)کی تحقیق میں سند وحجت کی حیثیت رکھتے ہیں۔