کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 89
حدیث نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ اس بات کی صراحت نہیں کرے تو حدیث اس احتما ل کی وجہ سے قبول کرلی جائے گی کہ روایت بالمعنی ہوئی ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب عربی کے غیر فصیح ہونے کی وجہ سے روایت نہیں رد کرسکتے کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے اور غامدی صاحب کے نزدیک روایت حدیث زیادہ تربالمعنی ہوئی ہے غامدی صاحب نے اس مضمون سے متعلق جو مثال پیش کی ہے غامدی صاحب اسے غیر فصیح عربی کہہ رہے ہیں اور اسکا حدیث ہونے سے انکار کررہے ہیں غامدی صاحب اپنے آپ کو اتنا بڑا عربی دان سمجھ کر کہہ رہے ہیں کہ ’’الشیخ والشیخۃ‘‘کو محض زبان کی بنیاد پر رد کردیا جائے دراصل یہ روایت غامدی صاحب کے نظریہ کے خلاف ہے کیونکہ اس سے شادی شدہ زانیوں کے لئے رجم کی سزا مقرر ہوتی ہے اور غامدی صاحب رجم کی سزا کے قائل نہیں ہیں ’’الشیخ والشیخۃ‘‘ جیسے الفاظ کو غامدی صاحب غیر فصیح اور عربیت کے ذوق کے خلاف کہہ رہے ہیں غامدی صاحب اگر آپ قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کریں اور اور عربی لغت کی کتابوں کا بھی غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو صحیح معنی میں عربیت کے ذوق کا علم ہوگا۔’’الشیخ ‘‘ یہ لفظ قرآن کریم میں بھی استعما ل ہوا ہے مثال کے طور ارشاد ہوتا ہے :وابونا شیخ کبیر ‘‘(القصص،۲۸آیت ۲۳)اس کے علاوہ بھی آیتیں ہیں جن میں یہ لفظ استعما ل ہوا ہے اگر کوئی اس لفظ کو غیر فصیح کہتا ہے تو نعوذبااللہ اس کے نزدیک قرآن غیر فصیح ہے لفظ شیخ مذکر ہے ’’والشیخۃ‘‘اسکا مؤنث ہے لغت کی سب سے بڑی کتاب لسان العرب میں ابن منظور فرماتے ہیں ’’شیخ :الذی استبانت فیہ السن وظھر علیہ الشیب وقیل ھو شیخ من خمس الی آخرہ والانثی شیخۃ‘‘(لسان العرب جلد۷ص۲۵۴) ’’الشیخ وہ ہے جس پر عمر کی زیادتی اور بڑھاپا واضح ہوجائے اور کہا جاتا ہے شیوخت کی عمر پچاس سال کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘‘