کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 84
یہ ہے کہ غامدی صاحب نے خطیب بغدادی کی پوری بات نقل نہیں کی صرف انکے کلام کے آخری حصے کو نقل کردیا جب تک پوری بات نہ پڑھی جائے بات واضح طور پر سمجھ میں نہیں آتی اور متکلم کی منشاء کا مفہوم عیاں نہیں ہوتا خطیب بغدادی نے خبر واحد کے قرآن وسنت اور عقل کے خلاف ہونے سے متعلق جو اصول بتایا ہے اسی باب میں اسی صفحے میں اسکی علت بھی بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں ’’والعلۃ فی ذالک انہ اذالم یعلم ان الخبر قول رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کان ابعد من العلم بمضمونہ ‘‘(الکفایہ فی علم الروایہ ص۳۷۱ ’’اسی بات(یعنی خبر واحد قرآن وعقل کے خلاف)میں جو علت ہے وہ یہ کہ جب یہ معلوم ہی نہ ہو پائے کہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے تو علم کے مضمون سے بہت دور ہے ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطیب بغدادی اس خبر کی بات کررہے ہیں جس کی صحت ثابت نہ ہو یعنی جس میں ضعف ہو وہ قرآن وسنت اور علم وعقل کے خلاف ہوتی ہے صحیح خبر کبھی بھی قرآن وسنت اورعقل کے خلاف نہیں ہوتی اس بات کی مزید وضاحت الکفایہ فی علم الروایہ کے اس باب سے ہوتی ہے جو خطیب بغدادی نے ’’تعارض الاخبار‘‘ کے نام سے تشکیل دیا ہے خطیب بغدادی اس میں محمد بن طیب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں ’’کل خبرین علم ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم تکلم بھما فلا یصح دخول التعارض فیھما ‘‘(الکفایہ فی علم الروایہ،ص۳۷۱)جب یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں حدیثیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں(یعنی انکی صحت بالکل درست ہے)تو ان میں آپس میں تعارض ناممکن ہے۔اسی صفحے پر محمد بن طیب نے قرآن کے ساتھ تعارض کا بھی ذکر کیا ہے(ایضاً) تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطیب بغدادی کا یہ نظریہ تھا کہ جس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے چاہے وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو کسی دوسری صحیح حدیث یا قرآن وعقل کے خلاف کبھی نہیں ہوسکتی۔