کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 80
بات یہ ہے کہ یہ اصول قرآن کریم کے خلاف بھی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انبیاء کی سنت کی ثبوت اتباع میں خبر واحد کو حجت ودلیل کے طور پر پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ(20)اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ‘‘(سورہ یٰسین آیت ۲۰۔۲۱)’’پرلے شہر کے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا کہا اس نے اے میری قوم رسولوں کی اتباع کرو ان کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں ‘‘ یہاں پر اللہ رب العزت نے اس اکیلے شخص کی خبر کو اس قوم کے لئے تو حجت قاطع کے طور پر پیش کیا ہے جس نے اپنی قوم کو رسولوں کی سنت کا درس دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خبر واحد کو قرآن مجید میں حجت قرار دیتا ہے اور اپنے رسول کے عمل(سنت)کو انکی امت کے لئے دلیل وبرھان کہتا ہے اگرچہ وہ خبر واحد سے ثابت ہو۔ اس کے علاوہ قرآن میں کئی آیتیں ہیں جن سے خبر واحد کی حجت ثابت ہوتی ہے۔ اب ہم سنت کی اس تعریف کو بیان کریں گے جو محدثین وفقھااوراھل اصول کی جماعت نے بیان کی ہیں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’ والمراد بالکتاب القرآن المتعبد بتلاوتہ بالسنۃ ماجاء عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم من اقوالہ وافعالہ وماھمّ بفعلہ‘‘سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال واقوال اور آپ کی تقریر یا جس فعل کا آپ نے ارادہ کیا ہو(لیکن اس پر عمل نہ کرپائے ہوں جیسے عاشورہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یہ اھل اصول اور محدثین کی اصطلاح ہے(فتح الباری جلد۱۳صفحہ۳۰۶) اگر ہم غامدی صاحب کے اصول سنت اور محدثین واھل اصول کی اس تعریف کو قرآن کریم