کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 78
بات بالکل واضح ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر زندگی کو اسوہ کہا ہے چاہے اس کا تعلق علم وعقیدے سے ہو یا عمل سے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو اخذ کرنے کا حکم دیا اور نبی کی ہر منع کردہ بات سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس میں علم وعقیدہ عمل سب شامل ہیں لہٰذا قرآن کریم کی روسے یہ تمام امورسنت ہیں۔
چاہے وہ عمل جس کی ابتداء قرآن سے ہوتی ہو جیساکہ غامدی صاحب کا تیسرا اصول ہے یا چاہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تطوع عمل کیا ہو جیساکہ غامدی صاحب کا چوتھا اصول ہے یا وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی کے لئے لوگوں کو بتایا۔اگر ہم سنت کی صحیح تعریف کو پڑھیں تو ہمیں مزید وضاحت ملتی ہے ابن الاثیر فرماتے ہیں ’’السنۃ وما یتصرف منھا والاصل فیھا الطریقۃ والسیرۃ واذأطلقت فی الشرع فانما یرادبھا ماامربہ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ونھی عنہ وندب الیہ قولاوفعلاممالم ینطق بہ الکتاب العزیز‘‘(النھایۃ فی غریب الحدیث جلد ۲ص۳۶۸)
سنت کے اصل معنی طریقے اور سیرت کے ہیں اور شریعت میں سنت کا اطلاق(ہر)اس چیز پر ہوتا ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہو یا جس چیز سے منع کیا ہو یا کوئی بھی بات کہی ہو یاکوئی بھی عمل کیا ہو جس کی وضاحت قرآن عزیز نہیں کرتا۔
اس تعریف سے غامدی صاحب کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ سنت وہ بھی نہیں جن کی ابتداء قرآن سے ہوئی ہو جیساکہ
آپ نے چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں زانیوں کو کوڑے مارے ہیں او باشوں کو سنگسار کیا ہے وغیرہ وغیرہ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں سے کوئی بھی چیز سنت نہیں۔
غامدی صاحب چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور زانیوں کو کوڑے مارنے کا حکم تو قرآن نے ہی دیا ہے لیکن ہاتھ کس طرح کاٹے جائیں کتنے کاٹے جائیں کتنی چوری پر کاٹے جائیں دونوں ہاتھ