کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 76
دیں اور ہر اس چیز میں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع کریں۔اگر غامدی صاحب اپنے قول کے مطابق ’’الکشاف‘‘کو پڑھ لیتے تو بات صحیح سمجھ میں آجاتی اور اس آیت کی مخالفت سے بھی بچ جاتے(لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ)کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے(الصف۔آیت۲)
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کا یہ حکم ’’ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ‘ ‘ جب عام ہے تو غامدی صاحب اس کی تخصیص حدیث سے کیوں کررہے ہیں۔جبکہ غامدی صاحب کے نظریہ کے مطابق حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص نہیں ہوسکتی لہٰذا یہاں پر بھی غامدی صاحب اپنے ہی اقوال کی مخالفت کررہے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ غامدی صاحب خود ہی قانون بناتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت کرتے ہیں ؟اور ایسے شخص کی بات کو کیسے مانا جائے کہ جو اپنے خود ساختہ اصول قائم کرکے پھر خود ہی ان کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اصول غامدی:۔
غامدی صاحب نے سنت کے تدبر میں سات اصول بیان کئے ہیں یہ ان کے پہلے اصول کا جائزہ ہے وہ اپنے اصول کی مزید توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام ترعملی زندگی سے ہے یعنی وہ چیز یں جو کرنے کی ہیں علم وعقیدہ تاریخ شان نزول اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے سنت کا کوئی تعلق نہیں۔
غامدی صاحب تیسرے اصو ل میں رقمطراز ہیں : تیسرا اصول یہ کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں جن کی ابتداء پیغمبر کے بجائے قرآن سے ہوتی ہے۔
غامدی صاحب کا چوتھا اصول ہے کہ : سنت پر بطور تطوع عمل کرنے سے بھی وہ کوئی نئی سنت نہیں بن جاتی ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد خداوندی کے تحت کہ وہ(وَمَنْ تَطَوَّعَ