کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 62
دوسری بات یہ ہے اس بات کا تعلق ان کی رائے کے ساتھ ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ساتھ اور اس بات کی وضاحت ہم کرچکے ہیں کہ حفظ احادیث میں آپ کا حافظہ بہت تیز تھا اور حدیث کو اسی طرح بیان کرتے جس طرح حدیث ہوتی اور یہ بات کوئی دور نہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قرآن کے حافظ ہوتے ہیں کسی بھی آیت کے بارے میں ان سے پوچھا جائے تو فورا بتادیتے ہیں جبکہ دوسری طرف کوئی چیز رکھ کر بھول جاتے ہیں ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے وہ چیز کہاں رکھی ہے۔ تیسری بات غامدی صاحب ابن شھاب رحمہ اللہ کو یہ بات کہہ کر طعن کررہے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کا جواب دیتے تو تین طرح کا ہوتا اور جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہ ہوتا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ یہ طعن خود غامدی صاحب کی ذات پر انہی کی زبان سے ہورہا ہے کیونکہ غامدی صاحب کی خود کی ہر ایک بات دوسرے نقیض کی ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں کہ وہ کیا کہہ چکے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔مثال کے طور پر ایک جگہ غامدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ بات کس طرح کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفھوم پر قطعی ہیں ؟ امام رازی نے اس سوال کی تقریر پر اپنی تفسیر اسی طرح کی ہے ’’دلالۃ الالفاظ علی معانیھا ظنیۃ‘‘الفاظ کی دلالت ان کے مفہوم پر ظنی ہے(اصول ومبادی میزان ۲۵) جبکہ دوسری جگہ فرمارہے ہیں : ان کے بارے میں ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال اگر پیدا ہوجائے کہ ان کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو ان میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گی(اصول ومبادی میزان،۳۳،۳۴) ایک جگہ قرآن کے بارے میں کہہ رہے ہیں ’’ ہر شخص پابند ہے کہ اس پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹہرائے ‘‘(ایضاً،۲۳)