کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 52
جبریل امین سے دورکیا وہ قرأت عامہ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہے۔اس عرضہ اخیر ہ کی قرأت کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرضہ اخیرہ سے پہلے دوسری قرأتوں میں جبریل امین سے قرآن کا دور کیا کیونکہ اگر قرآن ایک ہی قرأت ہوتی تو وفات کے سال میں قرآن کا جو دورہوا اس میں عرضہ اخیرہ کی وضاحت کی کیا ضروت تھی ؟ اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے بھی عرضہ اخیرہ کی قرأت کے علاوہ بھی کچھ قرأتیں موجود تھی اور شاید غامدی صاحب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔لیکن وہ کہتے ہیں صحابہ اور تابعین کے تواتر سے صرف عرضہ اخیرہ کی قرأت منقول ہے لہٰذا دیگر قرأتوں کا کوئی جواز نہیں۔اور یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ جتنے بھی دلائل یا اقوال غامدی صاحب نے ذکر کئے ہیں ان میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ باقی کی قرأتیں منع ہوگئیں یا اب ان کا پڑھنا حرام ہوگیا۔
۲)غامدی صاحب کوئی ایک ایسی واضح دلیل پیش کریں جس سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ ایک قرأت کے علاوہ تمام قرأتیں منسوخ ہیں ؟
(۳)غامدی صاحب نے ’’البرھان ‘‘ اور ’’ الاتقان ‘‘کے حوالے سے اقوال پیش کئے ہیں لیکن ان دونوں کتابوں کو غور سے نہیں پڑھا پڑھتے تو یہ نوبت نہ آتی غامدی صاحب نے(البرھان کے حوالے سے ابو عبدالرحمان السلمی کا قول تو پیش کردیا لیکن اس قول کو نہیں دیکھا جو امام زرکشی نے اپنی کتاب میں اس طرح بیان کیا ہے ’’ القراء ت السبع کلھا صحت عن رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘(البرھان الزرکشی ج۱ ص ۲۲۷)
’’ ساتوں قرأتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں ‘‘اسی طرح صاحب برھان امام زرکشی نے قرأت سبعہ پر مسلمانوں کا اجماع ذکر کیا ہے فرماتے ہیں ’’ وقد اجمع المسلمون علی الاعتماد فی ھذہ الاعصار علی ما صح عنھم ‘‘(البرھان ج۱ ص ۲۲۷)جس قرأت کی ان