کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 51
یہ دو مرتبہ آپ کو سنایا گیا۔(اصول و مبادی میزان ۲۷) غامدی صاحب نے اس روایت کو پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قرأت سے آپ کی وفات کے سال قرآن سنایا گیا وہ یہی قرأت ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے ہم قرأت حفص یا عامہ کہتے ہیں اور اس کے علاوہ جو قرأتیں ہیں ان کو ماننا یا ان قرأتوں میں قرآن پڑھنا اب جائز نہیں۔ اور پھر غامدی صاحب نے اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے ’’البرھان ‘‘ کے حوالے سے ابو عبدالرحمان السلمی کا قول ذکر کیا ہے۔ ’’ کانت قرأۃ ابی بکر وعمر وزید بن ثابت والمھاجرین والانصار واحدۃ۔۔۔الخ‘‘(البرھان الزرکشی ۱/۲۷۳) ابو بکر وعمر عثمان زید بن ثابت اور تمام مہاجرین وانصار کی قرأت ایک ہی تھی وہ قرأت عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔یہ وہی قرأت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا،عرضہ اخیر ہ کی اس قرأت میں زید بن ثابت بھی موجود تھے۔دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔ (اصول ومبادی میزان ۲۸) اسی طرح ابن سیرین کا’’ الاتقان ‘‘کے حوالے سے ایک قول ذکر کیا ہے ’’ القرأۃ الذی عرضت علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی العام الذی۔۔۔۔الخ(الاتقان،السیوطی ۱/۵۰۹)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے سال جس قرأت پرقرآن سنایا گیا یہ وہی قرأت ہے جس کے مطابق لوگ اس وقت بھی قرآن کی تلاوت کررہے ہیں۔(اصول ومبادی میزان،۲۹) (۱)ان اقوال میں یہ بات واضح ہے کہ آخری مرتبہ جس قرأت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے