کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 45
بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر نہ ہو ‘‘(اصول ومبادی میزان۴۴) اور قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ‘‘ تم پر مردار حرام کردیا گیا(المائدہ ۵ آیت ۳)یہ حکم بھی عام ہے جبکہ غامدی صاحب اس حکم کی تخصیص اس حدیث سے کررہے ہیں ’’تمہارے لئے دومردے حلال ہیں مچھلی اورٹڈی(اصول ومبادی میزان۴۲) ایک طرف غامدی صاحب اس بات کا انکار کررہے ہیں کہ کوئی وحی خفی یا جلی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن کی تخصیص وتحدید کریں۔اور پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کررہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب اس بات کو مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تخصیص وتحدید کرسکتے ہیں اگر چہ وہ اس کو تخصیص وتحدید کے بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اس کی مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے(اصول ومبادی میزان ۴۱)یہ صرف اس وجہ سے کہ اس بات کو مانا جائے جو ان کے نظریہ یا مطلب کے مطابق ہو،کیونکہ اگر کان دائیں طرف سے پکڑیں یا بائیں طرف سے بات ایک ہی ہے پکڑا کا ن ہی کو جارہا ہے اسی طرح غامدی صاحب حدیث سے قرآن کی تخصیص کو مان رہے ہیں لیکن اس کو نام دوسرا دے رہے ہیں۔ (۳)غامدی صاحب حدیث سے تو قرآن کی تخصیص کا انکار کرہے ہیں جبکہ انسانی فطرت کو اس کی تخصیص کا حق دے رہے ہیں مثال کے طور پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے(سورہ انعام ۷ آیت ۱۴۵) قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ(سورہ انعام ۷ آیت ۱۴۵) ترجمہ: کہہ دو میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے کسی کھانے والے پرکوئی چیز جو وہ کھاتا ہے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردارہو یا بہایا ہوا خون یا سور کا گوشت ‘‘ یقینا یہ