کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 44
جواب:۔ یہاں پر بھی غامدی صاحب بغیر دلیل کے اصول بیان کررہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اگر قرآن میں کسی قسم کی تحدید وتخصیص یا نسخ نہیں کرسکتے تو اس بات کی کیا دلیل ہے۔آخر یہ ایک بہت بڑا اصول ہے جو کو غامدی صاحب بیان کررہے ہیں لیکن اتنے بڑے اصول کو بیان کرنے کے بعد اسکی دلیل نہ دینا۔اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ غامدی صاحب کا خود ساختہ اصول ہے اگر غامدی صاحب کہیں کہ یہ اصول خود قرآن پاک نے بیان کیا ہے تو میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ ایک قرآن کی ایسی آیت دکھادیں جس میں یہ اصول بیان ہوا ہو ؟؟؟ (۲)قرآن مجید میں وراثت کا عام حکم ہے چاہے کوئی وارث مسلمان ہو یا کافر اسی طرح کوئی مورث۔لیکن غامدی صاحب نے اس حکم کی تخصیص کے لئے اس حدیث کو پیش کیا ہے ’’لا یرث المسلم الکافر ولاالکافر المسلم ‘‘ نہ مسلمان ان میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ کافر کسی مسلمان کے۔(اصول ومبادی میزان ۴۱) اسی طرح قرآن مجید میں ہے ’’ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا۔۔۔(المائدہ ۵ آیت ۳۸) ترجمہ:’’ چو ر مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ‘‘ اب یہ حکم عام ہے چاہے چوری کسی قسم کی ہو یا کسی چیز کی ہو تھوڑی ہو یا زیادہ لیکن غامدی صاحب نے اس حکم کی بھی تخصیص کے لئے اس حدیث کو پیش کیا ہے ’’لا قطع فی ثمر معلق ولافی حریسۃ جبل،فاذا آواہ المراح اوالبحر ین فالقطع فیما یبلغ ثمن المجن(المؤطا،۱۵۱۸) ’’ میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا بکری پہاڑ پر چڑھتی ہو اور کوئی اسے چرالے تو اس میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ہاں اگر بکری باڑے میں پہنچ جائے اور میوہ کھلیا ن میں آجائے تو ہاتھ کاٹا جائے