کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 37
جواب:۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن میں کوئی عام لفظ مذکور ہوتا ہے لیکن اس سے مراد کوئی خاص گروہ یا چندافراد ہوتے ہیں جیسا کہ علامہ جلاالدین سیوطی رحمہ اللہ نے(الاتقان فی علوم القرآن،ج،۲،ص،۳۱،۳۲)میں ذکر کیا ہے اور مثال کے طور پر اس آیت کو پیش کیا ہے(الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ)(سورۃ آل عمران،آیت ۱۷۳) یہ مئومنوں کو لوگوں نے کہا کہ بلاشبہ:لوگوں نے تمھارے مقابلہ کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں(الناس)عام لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس سے مراد بعض افراد ہیں کہنے والے بھی اور جمع ہونے والے بھی لیکن اس بات کی معرفت کے لئے ہمیں قرآن کے باہر کی چیز کا سہارا لینا پڑے گا بلکہ ہر شخص کو جو اس کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے قرآن کے علاوہ اس سے باہر کسی اور چیز کا سہارا لینا پڑیگا۔کیونکہ قرآن مجید خود اس بات کی وضاحت نہیں کرتا :جس شخص کورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو گی وہ آپ کی حدیث سے اس معرفت کو حاصل کرے گا۔اور اس کی شرح کو مانے گا جس کو اللہ نے شارح بناکر بھیجا اور اس شرح کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔اور اس کے برعکس جس کو اپنے اکابر و اساتذہ سے محبت ہوگی وہ ان کے اقوال و آراء کی طرف رجوع کرے گا۔جن کی بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ بات صحیح ہے یا غلط ہے؟ قارئین کرام آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان دونوں میں سے بہتر کون ہے؟کیا وہ بہتر ہے جن کو اپنے اکابر اور ان کے کلام سے محبت ہے؟ یا وہ جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور ان کے کلام سے محبت کرتا ہے؟ غامدی صاحب نے اس اصول کو بیان کر تے ہویئے ان آیتوں کو ذکر کیا ہے جو ان کے