کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 36
سے تمہیں کس چیز نے روکا ہے؟تب یہ آیت نازل ہو ئی کہ ہم نہیں اتر تے مگر تمہارے ربّ کے حکم سے۔‘‘ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ قرآن میں موجود اجمال و اشکالات کی وضاحت کے لئے ہمیں قرآن سے باہر یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لازماًرجوع کرنا پڑے گا۔ اصول غامدی:۔ آگے غامدی صاحب عام و خاص کا ذکر کرتے ہوئے اپنا نظریہ کچھ اس طرح بیان کر رہے ہیں : سوم یہ کہ اس کے عام وخاص میں امتیاز کیا جائے۔قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہرعام ہیں لیکن سیاق و سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اس سے مرادعا م نہیں ہے۔قرآن(الناس)کہتا ہے۔لیکن ساری دنیا کا ذکر کا تو بارہا اس سے عر ب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔وہ(علی الدین کلہ)کی تعبیر اختیار کرتا ہے لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔وہ(المشرکون)کے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن انہیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔وہ(وان من اہل الکتاب)کے الفاظ لاتا ہے لیکن اس سے مراد پورے عالم کے اہل کتاب نہیں ہوتے۔وہ(الانسان)کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشاء بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور کہیں سے کہیں بات پہنچ جاتی ہے۔لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ ہر حال میں قائم رکھی جائے۔(اصو ل ومبادی میزان،ص،۲۳)