کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 34
مزیدغامدی صاحب کو تفسیر البیان لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ جب قرآن پر غور وفکر کرنے والے کے سامنے بات خود ہی واضح ہوجاتی ہے اس بات کا جواب غامدی صاحب سے مطلوب ہے یہاں سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب قرآن فہمی کے لئے قرآن سے باہر کی چیز کا سہارا لیتے ہیں لیکن جس کو وہ قرآن سے باہرکا نام دے کر غیر ضروری کہہ رہے ہیں اس سے ان کی مراد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے افسوس کی بات ہے کہ قرآن سے باہر اپنے اکابر کی آراء و اقوال کو قرآن سمجھنے کے لئے مان رہے ہیں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی شرح ماننے سے انکار کررہے ہیں آخر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی دشمنی کیوں ؟
غامدی صاحب خود قرآن ہی کی روشنی میں کسی سورت کی صورت حال یا اس کا پس منظر معلوم ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ یہ بھی واضح نہیں ہوتی کہ یہ سورت کس جگہ پر نازل ہوئی مکہ میں یا مدینہ میں۔مثلاًسورۃ الفیل قرآن مجید ایک چھوٹی سی سورت ہے اللہ رب العالمین نے اس سورت میں ایک مخصوص واقعے کا ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کے اندر بے پناہ اجمال ہے پورا قرآن مجید پڑھ جائیں کہیں پر بھی اصحاب الفیل کے اس واقعہ کی تفصیل تو در کنار دوسرا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اصحاب الفیل کون تھے انہوں نے کیا مکر کیا اور کس وجہ سے ہلاک ہوئے ؟ہماری اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کی اس عبارت کو بغور پڑہیں(قرآن اپنے طالب علموں سے جن باتوں کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ اوّل یہ کہ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول کو سمجھنے کی کو شش کی جائے یعنی وہ پس منظر وہ تقاضے اور وہ صورت حال معین کی جائے جس کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی کوئی سورت نازل ہوئی ہو اس کے لئے قرآن کے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی یہ سب چیز یں خود قرآن ہی کی روشنی میں واضح ہو جاتیں ہیں:اصول ومبادی،ص۲۰۔۲۱)
قارئین کرام!قرآن مجید ان سوالات و اشکالات کی وضاحت و تفصیل خود نہیں کرتا بلکہ یہ ذمہ داری اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ ‘‘