کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 26
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی نفس پر ظلم نہ کرتا ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد وہ ظلم ہے جس کے نہ کرنے کا حکم لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دیا تھا۔
(يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ)(سورہ لقمان آیت ۱۳)
اے میرے بیٹے شرک نہ کرناکہ یقینا شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔(بخاری کتاب الایمان جلد ۱ حدیث ۱۳،صفحہ ۱۰۹)
صحابہ کرام جو کہ فصحا عرب میں سے تھے لیکن عرب کی فصاحت وبلاغت کے عارفین ہونے کے باوجود قرآن کی اس آیت کو نہ سمجھ سکے۔جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کیا تو اس آیت کا مفہوم واضح ہوگیا لہٰذا یہ بات ضوء النھار کی طرح واضح ہے کہ عربی لغت کی فہم کا خاص طور پر قرآنی لغت کی فھم کو کلام عرب(شعر جاہلیت)سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ضرورت ہے اور ہمیشہ سلف نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور ابھی بھی قرآن کے بعد سب سے زیادہ اسی پر اعتماد کیا جائے گا۔
غامدی صاحب خود کواپنے تئیں بہت بڑا لغوی اور ادیب گردانتے ہیں اپنی ساٹھ سالہ علمی زندگی کے اندر انہوں نے صرف ایک سو بائیس صفحات عربی میں لکھے ہیں جو کہ مختلف رسائل میں مضامین کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ان مضامین میں استعمال کردہ عربی سے بوسیدگی محسوس ہوتی ہے اس میں زیادہ تر الفاظ متروک الاستعمال ہیں۔ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب کے انداز بیان میں وہ عیب ہے جو عربی زبان میں ’’عجمہ‘‘یعنی عجمیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی عربی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ عربی زبان کے اسلوب سے بے خبر ہیں انہوں نے بیسویں صدی کے مشہور ادباء محمود احمد شاکر،طہ حسین،احمد حسن زیات،احمد تیمور پاشا،علی طنطاوی وغیرہ اور اسی طرح عراق سعودی عرب اور مراکش کے ادیبوں اور مصنفین کی تحریروں کو نہیں پڑہا ہے،ورنہ ان کی عربی کا اسلوب ایسا نہ ہوتا کہ جس سے بوسیدگی کی