کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 25
دیوان کیا ہے اس لئے کہ ان میں تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معانی بھی ہیں‘‘(البیضاوی،ج۱،ص۴۵۹بحوالہ اصول ومبادی،ص۱۷) اسی طرح المزہر فی علوم اللغۃ کے حوالے سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ آپ اگلے صفحات میں ملاحظہ کریں گے۔بیضاوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیرمیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بغیر سند نقل کیا ہے اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول امام سیوطی نے اپنی کتاب(المزہر فی علوم اللغۃ)میں کتاب الوقف لابی بکر انباری)کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کی توثیق وتضعیف کا پتہ نہیں ایک طرف تو غامدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد کلام عرب(شعر جاہلیت وغیرہ)ہی ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔صحت نقل(یعنی روایت کا صحیح ہونا)اور روایت باللفظ کی بنا پر اور اس وجہ سے ہر زبا ن کی تحقیق میں حجت ہے اور دوسری طرف غامدی صاحب وہ اقوال پیش کررہے ہیں جس کی صحت کاپتہ ہی نہیں(یعنی وہ صحیح ہیں یا نہیں)بلکہ صحت تو دور کی بات ہے سند کا ہی پتہ نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ اقوال روایت بالمعنی نقل کئے گئے ہیں یا روایت باللفظ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب لوگوں کی اصلاح کے بجائے لفاظی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ لغت قرآن کو سمجھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی سب سے بہتر ہے کیونکہ قرآن انہی پر نازل ہوا تھا امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تفسیر کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے اور اگر قرآن میں اجمال ہے تو اس کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کی شرح اور اس کی وضاحت ہے(تفسیر ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۶) اس مثال سے بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ’’ اَلَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ‘‘(سورہ انعام آیت ۸۲)